دو سپر پاورز کی لڑائی کا ملبہ اٹھاتے اٹھاتے ہماری دوسری نسل بھی قربان ہو رہی ہے جتنے زخم اس قوم نے سہے ہیں اقوام عالم میں اتنی تکلیفیں سہنے کی سکت شاید کسی میں نہ ہو، انقلاب پاکستان 1947ءکے بعد اس ملک کو اپنی بقا کےلئے قیادت اور وسائل کی ضرورت تھی۔ مہاجرین کی بڑی تعداد کو آباد کرنے جیسے چیلنجز در پےش تھے کہ بابائے قوم دنےا سے چلے گئے اور اُن کی پوری ٹیم جس میں چند کھوٹے سکے تھے وہ بھی مارکیٹ میں نہ چل سکے اور ایسا سیاسی خلاءپیدا ہوا جو عشروں تک نہ بھر سکا۔ مارشل لاءمیں معیشت کو فوکس کیا گےا اور پھر 65ءکی جنگ نے آ لیا اور اس کے چند عرصہ بعد ازلی دشمن نے ہمارا ایک بازو کاٹ دیا۔ انہی دنوں ایک اور قومی لیڈر اُبھرا جس سے 25سال بعد ملک کو آئین میسر آ ہی گیا لےکن پھر اداروں کی لڑائی نے اُس منتخب وزےراعظم کو سولی چڑھا کر دم لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب دنےا کی سب سے بڑی طاقتیں ایک پراکسی وار میں اُلجھ گئیں اور ہم ایک نا ختم ہونے والی جنگ کے ایندھن کے طور پر کام آنا شروع ہوئے، قدرت خدا کی دیکھئے کہ امریکن سی آئی اے آفیسرز قبائلیوں کو جہاد پر لیکچر دیتے رہے، ہم ایٹم بم کی لالچ اور ڈکٹیٹر کے اقتدار کے دوام کےلئے الجہاد الجہاد کا نعرہ بلند کرتے رہے، جنگجو قوم پاکستان نے ایک سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دےا جس سے امریکنز کے ذہن میں پاکستانیوں کے اس امیج کی بنیاد بھی رکھ دی گئی کہ انہیں پیسے دیں تو یہ اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں۔ مدرسوں میں جنگجو تیار کرنے کی فیکٹریز لگائی گئیں اور اُنکی ایکسپورٹ سے خوب زر مبادلہ کمایا گےا۔ یہ جنگ جیت کر دنےا کی واحد رہ جانیوالی سپر پاور نے ایک ایک کر کے اسکے تمام کرداروں کو ختم کر دیا۔ کچھ جنگجو شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے تو کچھ غازی بن کر واپس آ گئے اور کچھ جہاد کے بعد اسلامی ریاست بنانے کے چکر میں وہاں افغانستان میں ہی آبادکاریاں کرنے میں مصروف ہو گئے، جمہوریت بحال ہوئی تو سیاستدان لڑائی اور کرپشن کی داستانیں لکھنے لگے جبکہ دیگر اداروں نے ایک عشرے تک اس بات کو یقینی بنایا کہ جمہوریت چلے لےکن اُن کی بیساکھیوں سے۔ دیکھتے ہی دیکھتے 99ءمیں ایسے ایک ادارے کی بیساکھی نے سہارا لینے والی جمہوریت کو ڈھا دیا اور ایک دفعہ پھر ملک کی سرحدوں کا دفاع کرنے والے افواج پاکستان کا فوکس باہر کی بجائے اندرونی ملکی حالات پر مرکوز ہو گےا۔ 9/11 ہوا اور پھر امریکہ کی نظر سے پوری دنےا نے ہمیں مشکوک سمجھنا شروع کر دیا۔20سال پہلے جو لوگ جنگجو تھے وہ دہشت گرد قرار پائے۔ اُن کی سرکوبی کےلئے 11مطالبات پےش کےے گئے جو من و عن جی حضوری کے ساتھ ڈکٹیٹر نے قبول کر لئے کیونکہ اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا، پتھر کے زمانے میں جانے کا خوف اور امریکہ کی آشیر آباد کے ساتھ انڈین گھات نے ہمیں کسی حماقت کی طرف نہ جانے پر مجبور کر دیا۔ طاقت کے نشے میں چور سپر پاور نے سینکڑوں کروز میزائلوں کے ساتھ پورے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جس کے بعد سیدھی جنگ گوریلا وار میں تبدیل ہو گئی۔ اس وقت پرانے جنگجو امریکہ کی جنگ لڑنے والے حالیہ دہشت گرد سپر پاور کو تھکانے کا پروگرام بنا چکے تھے اور پھر پانچ چھ سال کی تباہ کاریوں کے بعد دوبارہ اُس ملک کو بنانے کا آغاز ہوا۔ اس نئی آبادکاری کے چکر میں ایک اور پراکسی وار نے پاکستان کو آ گھیرا۔ پاکستانی، افغانی، امریکن، انڈین ہر قسم کے بلاک وہاں تیار ہونے لگے، انڈین بلاک نے پاکستان کو امریکہ کے اتحادی کے طور پر پراپیگنڈہ کر کے اور خوب پیسہ کھلا کر اُن جنگجوﺅں کو ہمارے ملک پر چڑھا دیا، سپر پاور ڈرون مارتا اور ہم صفائیاںدیتے، جہاز وہ اُڑاتا، اڈے ہم دیتے، کام وہ خراب کرتا ہم اس کا دفاع کرتے، وہ جنگ شروع کرتا اور ہم لڑتے رہتے، وہ خریدتا اور ہم اپنا آپ بیچتے رہتے کیونکہ معروضی حالات کے مطابق ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا اور سپر پاور کے مفادات کا تحفظ کرتے کرتے ہم کیمپ ڈیوڈ تک جا پہنچے اور ازلی دشمن بھارت ان جنگجو نما دہشتگردوں کے کندھوں پر بیٹھ کر ہمارے ملک کے اندر تک گھس آیا۔2006ءکے آواخر اور 2007ءکے شروع میں ملک میں خودکش حملوں کا ایسا عذاب شروع ہوا جو کہ آج دس سال بعد بھی جس کی آگ نے ہمیں لپیٹ میں لے رکھا ہے۔62 ہزار شہری 6 ہزار فوجی اور150 ارب ڈالر گنوانے کے بعد بھی دنےا ہمیں شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ 50لاکھ مہاجرین جس ملک کے ہم نے پیٹ کاٹ کر پالے وہ ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے، ازلی دشمن بھارت، ایران، افغانستان اور متحدہ عرب امارات سے گھٹ جوڑ کر کے پیٹھ میں چھرا گھونپے جا رہا ہے اور ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ اس کے ساتھ وہی سلوک کرنا ہے یا تجارت کرنی ہے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال عرصہ دو سال سے کافی حد تک بہتر تھی، پکڑ دھکڑ، پھانسیاں، کوبنگ آپریشن زور وشور سے جاری تھا۔ معاشی سروے انویسٹمنٹ پلان CPEC، سڑکیں جمہوری حکومت اپنے ویژن کے مطابق بہتر کام کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ ایک بار پھر ازلی دشمن بھارت نے ملک کو عدم استحکام کا شکار کر دیا۔ ایک بار پھر پوری یکسوئی سے فوج اور حکومت کو بیٹھ کر اس بات پر پلاننگ کرنا ہوگی اس دہشت گردی کو جڑ سے کیسے اکھاڑنا ہے اور اس کا مکمل قلع قمع کرنا ہے۔ یہ وقت سیاسی پوائنٹ سکورننگ کا نہیں، استحکام ہوگا تو 2018ءکا الےکشن بھی ہوگا، تمام سیاسی اور عسکری طاقتوں کےلئے یہ ایک بار پھر ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ اب کی بار ایسا پلان بنائیں کہ سپر پاور کو لگام ڈل جائے، انڈیا اپنی عیاریاں بھول جائے اور افغانی بھی احسان فراموشی سے باہر آجائیں۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اس کی بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ہے۔ پاکستان کے معاشی سیاسی اور دیگر برے حالا ت میں اس کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ ہمیں اُسکی سازشیں اُسی پر پلٹانی ہیں۔ ہمیں اُس سے تجارت نہیں کرنی۔ ہمیں اقوام عالم کو اس کا مکروہ اور بدنما چہرہ دکھانا ہے۔