”جسٹس شوکت صدیقی ”فیصلہ لِکھواتے ہوئے رو پڑے۔ بات ہی ایسی ہے۔ کوئی کتنا ہی بڑا منصب دار کیوں نہ ہو۔ دنیا کی سب بادشاہتیں۔ سلطنت۔ زمین و آسمان کے تمام ظاہر۔ پوشیدہ خزانے ”ہادی بر حق۔ شافع محشر۔ رسول اللہﷺ“ پر قربان۔ امت اعمال میں مُردہ سہی مگر اِس ”نامِ مقدس“ پر سر کٹوانے کو ہر پل تیار رہتی ہے۔ انتظامیہ کی خاموشی شرمناک نہیں۔ افسوس تو اِس بات کا ہے کہ ایک دیندار گھرانے کی شہرت رکھنے والا ”شریف خاندان“ اتنی بڑی گُستاخی پر چپ کیوں رہا۔ جبکہ ”ملک“ پر اُن کی حکمرانی ہے۔ ”جسٹس شوکت صدیقی“ نے تاریخ لکھ دی کہ مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرنے والے دہشت گر د ہیں۔ یہاں ہم اضافہ کرتے ہوئے لکھیں گے کہ دہشت گرد سے بڑھ کر ”واجب القتل“ ہیں۔ اب جب محرومیوں۔ افلاس کے مارے زندگی کے سبھی شعبے داد رسی۔ انصاف کی طلبی میں ”عدالتوں“ کے در پر جھولی پھیلائے کھڑے ہیں تو پھر واقعی معاملہ کو بیورو کریس پر چھڑنا نہیں چاہیے۔ یہاں معاملہ آزادی اظہار کا نہیں۔ گُستاخانہ مواد کی بھرمار کا ہے۔ پلید اذہان کا ہے۔ ناپاک سوچوں کا ہے۔ واقعی ”ایسے نہیں چلے گا“ قابل تعریف ہیں ”ڈاکٹر عامر لیاقت“ کہ جنہوں نے سب سے پہلے اِس مُردود مہم کے خلاف حق کی آواز بلند کی۔ پاداش میں پروگرام بند کروا لیا اب پھر سے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
”شیخ سعدی“ کا قول ہے کہ سوئی کے ناکے کے برابر بُرائی کو اگر شروع سے نہ روکا جائے تو وہ پھیل کر گڑھا بن جاتی ہے کہ ہاتھی کا گزرنا محال ہو جاتا ہے۔ بعینہ اِس ضمن میں بھی یہی کچھ ہوا۔ کِسی نے بھی نوٹس نہیں لیا۔ حکومت تو پہلے ہی کِسی شعبہ میں فعال نہیں۔ وہ جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہاتھوں میں ڈنڈے لئے سڑکوں کو دھوئیں میں نہلا دیتے تھے نجانے کِس ”بل“ میں گُھسے بیٹھے ہیں۔ حتیٰ کہ کشمیر کمیٹی کے دستر خوان پر دراز بھی مقدار سے زائد ''Sleeping Pills" لئے معلوم ہوتے ہیں۔
”معزز اعلیٰ عدلیہ“ کا ایک کیس میں فرمان پڑھا کہ ”اعترافِ جرم“ کے بعد انکوائری نہیں۔ کارروائی ہونی چاہیے۔ ایک فرد نے نہیں۔ عوام نے بھی بارہا نوٹس دلایا۔ کچھ طبقات نیم مُردہ سہی۔ پر احتجاج کرتے دکھائی دئیے۔ ثبوت کے لئے نہ گواہوں کی ضرورت تھی نہ قانونی موشگافیاں سُلجھانے کا معاملہ تھا۔ یہاں تو صورتحال بہت واضح تھی۔ مواد ”عدلیہ“ سمیت سبھی نے پڑھ لیا تھا مگر سبھی سوئے رہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نوٹس لینے والے شاید اسلئیے خاموش تھے کہ شہ سرخی نہیں بننا تھی۔ ٹِکرز چلوانے کے شائق کے نصیب میں یہ سعادت نہیں لِکھی تھی جو ”قابل احترام جسٹس شوکت صدیقی“ کی جھولی نے برکات سمیٹ لیں۔
دن رات ”ٹرمپ“ کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں نے زیرو فیصد بھی اس معاملہ کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ نہایت دیانتداری کے ساتھ یہ اظہار کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ 6 مسلم ممالک پر امریکی ویزے بند کرنے کا فیصلہ شاید ”اُمتِ مُردہ“ کے مدفن میں روح پُھونک دے۔ ہمارے وجود ایمان سے محروم کھوکھلے ڈھانچے بن چُکے ہیں۔ ہماری روح افلاس سے خالی مادی فساد میں ڈھل چُکی ہے تبھی ہر طرف پابندیوں کا سامنا ہے۔ سختیوں۔ مظالم کے دور چل رہے ہیں۔ مسلمان دنیا کے ہر خطے میں مصائب۔ تنگی کا شکار ہے مگر ”دین مبین اسلام“ دنیا کے ہر خطے میں تیزی سے قبولیت کے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سر زمین ”امریکہ“ کے ایک تحقیاتی ادارے ”پیور ریسرچ سنٹر“ کے مطابق اسلام "2050" تک دنیا کا مقبول ترین مذہب بن جائے گا۔ آنے والے 33 برسوں میں مسیحیت کی جگہ اسلام لے لے گا۔ سب سے زیادہ خوشی کی خبر۔ دنیا کی نمبر 2 مُسلم کُش ریاست انڈیا ”31 کروڑ“ مسلمانوں کی تعداد کے ساتھ پہلے نمبر پر ہو گا۔ قارئین ہم اپنے اعمال کی بنا پر دھتکارے جارہے ہیں۔ مختلف خِطوں سے نکالے جارہے ہیں اسلئیے کہ ہمارے قول۔ فعل میں مطابقت نہیں۔ ہماری سوچ۔ عمل میں تضاد ہے۔ نیت میں کھوٹ ہے عام مسلمان سے لیکر سگے رشتہ داروں تک کے لیے بغض سے سوچتے۔ حقارت سے دیکھتے ہیں۔ اسلام اسلئیے پھیل رہا ہے کہ تاریخی قرانی تعلیمات اِس کی متوقع عالمگیر قبولیت۔ پھیلاﺅ پر تصدیق کرتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ”84 فیصد“ افراد شرعی قوانین کے حامی ہیں۔ افغانستان میں ”99 فیصد“۔ عراق میں ”91 فیصد“۔ یہ جو ”84 فیصد“ شریعت کے حامی پاکستانی افراد۔ کیا دل سے نفاذ کے حامی ہیں؟ کیا وہ جانتے ہیں کہ نفاذ کا عملی۔ قولی مطلب کیا ہے؟ نفاذ کے بعد کی صورتحال کا ادراک رکھتے ہیں؟ کیا وہ یقین دلا سکتے ہیں کہ شریعت کے نفاذ کے بعد ”گوالہ“ ملاوٹ والا دودھ نہیں بیچ سکے گا؟ ڈاکٹر مریض کی جان سے نہیں کھیلے گا۔ سبزی۔ فروٹ اُگانے والے فصلوں کی بڑھوتری کے لیے زہریلے سپرے استعمال نہیں کر سکیں گے۔ سب سے بڑھ کر وہ ایسے حکمران منتخب نہیں کر سکے گے جن کی ”اولاد سے لیکر مال“ تک بیرون ملک محفوظ پڑے ہیں۔ جو صحیح مسلمان ہے اُس کے اندر شریعت نافذ ہے وہ اسلامی اصولوں پر چلے گا تو کیوں دنیا کے دھکے کھائے؟ اسلام پھیل رہا ہے اور پھیلے گا کیونکہ اُس کا پیغام آفاقی نہ مِٹنے والا ہے۔ سچے۔ کھرے قوانینِ قدرت کا مجموعہ۔ اسلئیے ”اسلام“ ایک دو ممالک نہیں۔ ایک دن پوری دنیا کا نمبرون مقبول مذہب ہو گا۔