کتاب انیس تنہائی اور آگاہی ہے

کتاب خزینئہ دانش و بینش اور سرمایہ دانائی ہے۔قرآن مجید میں ’’ذلک الکتاب لاریب فیہ‘‘کا اعلان ربانی سرچشمہ روحانی وعرفانی و برہانی ہے۔یہ کتاب حکمت بھی ہے اور نصاب ہدایت بھی۔سورۃ البقرہ میں جب پیغمبر عہد نے طالوت کو حاکم مقرر کیا تو اہل زر نے ان کی حاکمیت پر اس لئے اعتراض کیا کہ وہ کسی بے زر کو حاکم تسلیم نہیں کرتے۔انکے نبی نے فرمایا’’بے شک اﷲ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرمائی ہے‘‘گویا نظام خداوندی میں صاحب علم صاحب حکومت ہوتا ہے اور نظام ابلیس میں صاحب زر صاحب حکومت ہوتا ہے۔اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 251 میں ارشاد ربانی ہے۔’’اور داود نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے ان کو حکومت اور حکمت عطا فرمائی ‘‘۔میرے کالم کا لوگو اسی لئے ’’حکمت و حکومت‘‘ہے ۔صاحبان حکمت کا صاحبان حکومت ہونا سنت وطریق انبیاء ہے۔قرآن مجید نظام عدل و توازن واعتدال کا ذکر کرتا ہے۔سورۃ رحمان میںارشاد ربانی ہے۔’’اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو کم نہ کرو‘‘۔گویا قرآن مجید ’’میزان زیست‘‘ہے اسکے ایک پلڑے میں دین اور دوسرے میں دنیا ہے۔دینی اور دنیوی امور میں توازن ہی میزان عدل ہے۔میزان زیست ہے۔یہ تمہید باندھنے کا مقصد ’’میزان زیست‘‘کے عنوان سے لکھی گئی کتاب کا ذکر ہے۔آج چند کتابوں پراجمالی رائے اور طائرانہ نگاہ مدعا ہے۔آزاد کشمیر کے سابق چیف جسٹس سید منظور حسین گیلانی شش جہت شخصیت ہیں۔ دانشور،کالم نگار،قانون دان ،ادیب ،عالم اور جج۔ آپ نے اپنی سوانح حیات بعنوان میزان زیست بطور تحفہ مرحمت فرمائی۔قطرے میں دجلہ کا نظارہ کردیا۔سمندر کو کوزے میں بند کردیا۔آپ بیتی میں جگ بیتی ہے مقبوضہ کشمیر سری نگر میں وکالت کی 1976 میں سری نگر سے ہجرت کرکے مظفرآباد آزاد کشمیر میں اقامت اختیار کی۔2010 میں آزاد کشمیر سپریم کورٹ سے بطور چیف جسٹس ریٹائر ہوئے۔آزاد کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور چیف الیکشن کمشنر رہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل آف پاکستان کے رکن بھی رہے۔جوانی سری نگر میں گزری۔ننھیال میں پروش ہوئی۔والدین تقسیم ہند کے وقت آزاد کشمیر میں آباد ہوگئے تھے آپ 1676 میں مظفرآباد آگئے۔میزان زیست 15 ابواب پر مشتمل ہے۔ کشمیریات کے عنوان سے باب بڑی معلومات پر مشتمل ہے۔کتاب میں واقعات زندگی کے علاوہ مذہب،سیاسیات اور ادبیات پران کے نظریات ایک مدبرو دانشور کا ثمر فکر ہے۔مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی سیاسی شخصیات پر تبصرہ بھی نہایت دلچسپ ہے۔جسٹس صاحب کے خلوص پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ دل و جان سے اسلام اور پاکستان کے فدائی ہیں۔حلیم و کریم شخصیت ہیں۔آج کے کالم میں چند کتابوں کے حوالہ سے نقد نظر کی میزان زیست میں تولنا مقصود ہے کتاب روشنی ۔آگاہی ہے پروفیسر سردار ریاض اصغر ملوٹی آف آزاد کشمیر کی کتاب بعنوان’’جھیل رتی گلی‘‘زیور طبع سے آراستہ و پیراستہ ہوئی۔کتاب کا تحفہ نظر نواز ہوا۔کتاب پر نامور ادیبوں اور دانشوروں کی آراء شامل ہیں۔مجید اصغر،اکرم سہیل،سید سلیم گردیزی،پروفیسر ڈاکٹر محمد صغیر خان، پروفیسر عبدالحق مراد،پروفیسر سردار مسعود خان اور راجہ نسیم اختر کیانی نے کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں دلپذیر و فکر انگیز انداز میں بہ طریق احسن خامہ فرسائی کی ہے ۔راقم الحروف کی رائے بھی درج کتاب ہے جو قارئین کی نذر کرتا ہوں۔’’پروفیسر سردار ریاض ملوٹی وادی کشمیر جنت نظیر کے مایہ ناز سپوت ہیں آپ صاحب نظر بھی ہیں صاحب درد بھی ہیں۔کشمیر سے محبت انکے رگ و پے میں ہے۔قبل ازیں انکی تصنیف بعنوان ہے اور ’’بزرگ چنار‘‘داستان وفاداری ہے۔آزاد کشمیر کی چند نابغہ روزگار شخصیات میں پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی کا شمار ہوتا ہے۔یہ ہم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی کہ ہم کشمیر کی ادبی،علمی ،فکری ،سماجی، مذہبی، روحانی، سیاسی اور قومی شخصیات پر خامہ فرسائی کریں اور کشمیر کے سیاحتی مقامات کو بھی اپنی تحریروں میں اجاگر کریں تاکہ دنیا بھر سے ان مقامات میں سیرو سیاحت کیلئے آئیں۔
پروفیسر صاحب کا زیر طبع کتاب سفر نامہ ’’جھیل رتی گلی‘‘ادبیات میں ایک خوشگوار اضافہ ہے۔اس میں آزاد کشمیر کی حیثیت وتشخص کا بھی ذکر ہے۔مسئلہ کشمیر اور بدلتی صورت حال کا بھی تذکرہ ہے۔معدنیات ،جھیلوں ،وادی نیلم کے حسین مقامات اور شخصیات کا بھی ذکر ہے۔کتاب زبان و بیان کے اعتبار سے دلچسپ اور معلومات افزاء ہے۔ آزاد کشمیر ،پاکستان اور دیگر ممالک کے عوام اور خواص کیلئے یہ کتاب خزینۂ ادراک و احساسات نیلم واہلیان نیلم ہے۔ کتاب کی اشاعت پر پروفیسر صاحب تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ مبارک باد کے مستحق ہیں ‘‘۔گورنمنٹ پوسٹ گویجویٹ بوائز کالج پلندری کے دانشور استاد پروفیسر سردار مسعود خان کی تصانیف تاریخ سدھنوتی،غازی ملت، ذکر بہار آخر،سکھ عہد،تب وتاب جاودانہ اور خطبات اقبال سرزمین پونچھ کے بارے اہم تصانیف ہیں۔میں نے ایک ملاقات میں صدر آزاد کشمیر اور وزیراعظم آزاد کشمیر سے کہا کہ کشمیر کلچرل اکادمی کو فعال ادارہ بنائیں۔پروفیسر محمد تقلین ضیغم نے ’’ثمینہ راجہ ،حیات اور ادبی خدمات‘‘کے عنوان سے اسلام آباد کی رہائشی نامور شاعرہ ثمینہ راجہ مرحومہ پرا یم فل کا تھیئسس لکھا اور اسے زیور طباعت سے آراستہ و پیراستہ کیا۔موصوف نے یہ کمال محبت یہ کتاب بطور تحفہ مجھے ارسال کی۔کتاب ثمینہ راجہ کی زندگی اور فن پر بھرپور قابل صدر تمجید و تحسین ادبی دستاویز ہے۔علاوہ ازیں اردو ادب و شاعری پر ایک تحقیقی و تنقیدی سرمایہ ہے جو ثمینہ راجہ کے حوالے سے قارئین کو ادبیات سے متعارف کراتا ہے۔ثمینہ راجہ نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد میں معاملات کی مشیر رہیں۔فاونڈیشن کے ادبی مجلہ ماہنامہ ’’کتاب‘‘کی مدیرہ رہیں۔اسلام آباد سے شائع ہونے والے ادبی مجلہ ماہنامہ ’’آثار‘‘کی بھی مدیرہ رہیں۔ثمینہ راجہ کا تعلق رحیم یار خان کی راجہ کوت تحصیل کے ایک متمول و بارسوخ زمیندار خاندان سے تھا۔ان کے والد گرامی راجہ مولا بخش کی تیسری بیگم سے ثمینہ راجہ 11 ستمبر 1957 کو پیدا ہوئیں۔گھریلو ماحول روایتی مذہبی اور مردانہ استعمار کی علامت تھا۔ایسے ماحول میں جہاں ’’چادر و چار دیواری‘‘کا سماں ہو وہاں سے ایک انقلابی و باغی اور رومانوی شاعرہ کا وجودو درود جہان تنگ نظر میں کسی معجزے سے کم نہیں۔ثمینہ راجہ نے زمان ملک کی شاعری سے متاثر ہوکر اس سے شادی کی۔زمان ملک راولپنڈی اور اسلام آباد کی ایک ادبی شخصیت ہیں۔موصوف گارڈن کالج راولپنڈی میں میرے ہم جماعت اور دوست تھے۔شائستہ و شگفتہ مزاج اور شاعر دلپذیر شخصیت ہیں۔ زمان ملک اور ثمینہ راجہ نے کئی سال ازدواجی ربط و رشتہ میں خوشگوار گزارے۔چشم فلک کی نظر بدنے اور مشرقی خاندانی روایات نے دونوں میں دوری پیدا کردی نوبت بہ طلاق رسید، طلاق کے بعد ثمینہ راجہ کی زندگی اداسی،بے قراری،بے سکونی اور تنہائی کی نذر ہوگئی۔زخم دل سے خون رستا رہا اور نوک قلم پرسیاہی کے بجائے خون دل روشنائی بنتا رہا۔وہ انتہائی باوقار اور خوددار خاتون تھیں۔مجھے جب بھی کسی ادبی تقریب میں ملتیں تو نہایت متبسم اور متوازن سلیقہ و قرینہ عکس رخ گلنار ہوتا۔ثمینہ راجہ جیسے اندر سے خوبصورت شاعرہ تھیں وہ ظاہر طور پر بھی حسن مجسم کا پیکر تھیں۔ذہین و فطین تھیں۔ان کی زندگی میں انکی شاعری کے بارہ مجموعے شائع ہوئے۔تصوف و روحانیت اور بادہ ایقان و عرفان کی لذت سے سرشار تھیں۔صاحب مطالعہ تھیں۔میر تقی میر ،غالب ،اقبال،فیض اور احمد فراز کی شاعری سے متاثر تھیں۔حافظ شیرازی کی دلدادہ تھیں۔رومانوی شاعری اور داستان ہجر کو ایک ولولہ تازہ دیا۔سہل ممتع میں فرد تھیں۔قادر الکلام تھیں ۔ صنعت بدیع،صنعت تلمیع اور صنعت تفاد میں جاندار شاعری کرکے زبان و بیان پردسترس کا لوہا منوایا۔ شعریت، رنگ تغزل اور عنایت و موسیقیت میں طاق تھیں۔سماجی و سیاسی نظریات کی حامل تھیں۔جمہوریت کی داعی اور آمریت کے خلاف تھیں۔ہویدا۔شہرسبا اور وصال ،خوابنائے،باغ شب، بازدید،ہفت آسمان،پری خانہ،عدن کے راستے پر ،دل لیلیٰ اور عشق آباد ان کے شعری مجموعے ہیں ۔وقت سے پہلے مرگ ناگہاں کا شکار ہوئیں۔بستر مرگ پر بھی اشعار دلسوز لکھے ،کہتی ہیں …؎
یہ تو طے ہے کہ میری روح نہیں مرسکتی
کیسا پہنے گی بھلا جسم نیا میرے بعد

پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری

ای پیپر دی نیشن