اداروں میں تؔصادم کی بات ہورہی ہے ، پرسوں حلف اٹھایا تو دستاویزات سینیٹ کے سامنے رکھ دوں گا : رضا ربانی

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+نوائے وقت نیوز) سینٹ کے سبکدوش ہونے والے چیئرمین میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ ایسا قانون منظور کرے جس کے تحت تمام مالی اور دفاعی معاہدات کی پارلیمنٹ سے توثیق کو لازمی قرار دیا جائے‘ فوج انتظامیہ کے تحت ہے مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ وہ سٹیک ہولڈر ہے‘ ہم سے کوتاہی ہوئی یا غلطی پارلیمان نے خود جگہ دی ہے‘ آرڈیننس کے اجراءسے پارلیمنٹ کا اختیار متاثر ہوتا ہے‘ ملک کے اندر اداروں کے درمیان تصادم کی بات ہو رہی ہے‘ اداروں کے درمیان بات چیت ہونا چاہئے‘ محاذ آرائی سے بچنے کیلئے سب ادارے انا کو چھوڑیں۔ اس سلسلہ میں 60 سے 70 صفحات کی رولنگ تیار کی تھی تاہم مناسب سمجھا کہ اسے نہ دوں‘پرسوں 12 مارچ کو اگر حلف اٹھایا تو وہ دستاویز سینٹ کے سامنے رکھ دوں گا۔ ان کی تین اہم رولنگ جو معدنی وسائل‘ سی سی آئی کے الگ سیکرٹریٹ کی تشکیل کے سلسلے میں تھیں ان کو ایوان آگے بڑھائے۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے ان خیالات کا اظہار سینٹ میں اپنے الوداعی خطاب میں کیا۔ خطاب کے بعد تمام سینیٹرز نے نشستوں سے کھڑے ہو کر ان کے لئے ڈیسک بجایا۔ بعدازاں سینٹ کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ میاں رضا ربانی نے کہا کہ 12 مارچ 2015ءکو منصب کا حلف اٹھایا تھا اس کے بعد جو پہلا سیشن ہوا تھا اس میں پہلی چیز کی تھی وہ یہ تھی کہ فلور پر اپنے اثاثے ظاہر کئے تھے۔ میرا وعدہ تھا جب میں منصب سے ہٹوں گا اس تاریخ کو اثاثے ایوان میں رکھوں گا اس لئے اثاثوں کی تفصیل پیش کر رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج سیاسی طورپر ایک ادنیٰ سیاسی کارکن کی حیثیت سے میں جس مقام پر کھڑا ہوں اس میں بنیادی طورپر دو خواتین کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ ایک میری والدہ جن کی دعا¶ں سے اس جگہ تک پہنچ سکا۔ دوسرا میری سیاسی ماں تھیں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو۔ منصب آنے جانے ہیں آخر میں آدمی کا کردار اس کے اصول اور پیغام یا ورثہ جس کا میں اپنے آپ کو امین سمجھتا ہوں وہ ورثہ ذوالفقار علی بھٹو کا ہے کہ اپنی گردن کٹا لو اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرو۔ گزشتہ تین سال میں کوشش رہی کہ آئین‘ پارلیمان کی بالادستی پر سمجھوتہ نہ کروں۔ چیئرمین کو حاصل صوابدیدی اختیارات میں ترمیم کی اور ان کو عملی طورپر ہا¶س بزنس کمیٹیز کو منتقل کر دیا، کرسی پر بیٹھ کر میں نے کئی بار سختی اور تلخی سے بات کی‘ میں درویش آدمی ہوں اور خودی کو مارنے کی کوشش کی ہے‘ وہ سختی ہا¶س کو احسن طریقہ سے چلانے کےلئے تھی‘ ہم آئین اور پارلیمان کی بالادستی کی بات کرتے ہیں اگر ہا¶س قانون پر عمل کی بات نہیں کریں گے تو ممکن نہیں ہو گا کہ ہم بڑی جنگ کو جیت سکیں۔ یہ درست ہے کہ پارلیمان کی بالادستی ہونی چاہئے‘ پارلیمنٹ بالادست ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے۔ سینٹ نے ہر کوشش کی۔ پہلے چیف جسٹس نے بلایا میں گیا‘ ایوان کی کمیٹی میں چیف جسٹس آئے‘ موجودہ چیف جسٹس نے بلایا‘ انہوں نے اپنے ادارے میں اصلاحات کی بات کی‘ میں نے ججز کی تقرری کی کمیٹی کی بات کی۔ امید ہے آئندہ چیئرمین 175اے کے ڈائیلاگ کو آگے لے کر چلے گا۔ اس طرح آرمی چیف کو ایوان ”ہول کمیٹی“ میں دعوت دی‘ اسی ہال میں کھلی گفتگو کی‘ سب آگے بڑھنے کا طریقہ ہے۔ پارلیمنٹ کو تحلیل کیا گیا ہم نے اس کو تسلیم کر لیا‘ معطل کیا گیا ہم نے اس کو قبول کرلیا، جب پارلیمان کو بحال کیا گیا تو ہم اچھے بچوں کی طرح واپس آگئے اور کہا ہم ان قوانین کو من و عن مانتے ہیں اور ٹھپہ لگا دیتے ہیں‘ آرڈیننس کے اجراءسے پارلیمنٹ کا اختیار متاثر ہوتا ہے‘ آرڈیننس آتا تھا اور ہم اس کو منظور کردیتے تھے۔ پارلیمان کی بالادستی کیلئے لازمی ہے کہ آرٹیکل 89کو ختم کر دیا جائے‘ ساری قانون سازی پارلیمنٹ کے ذریعے کی جائے‘ غیر ملکی معاہدات کو پارلیمنٹ کے سامنے لانا ضروری تھا مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا‘ اس فیصلہ کی توثیق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہوئی تھی مگر اس پر عمل نہیں کیا گیا‘ پارلیمنٹ کو خود ایک قانون منظور کرانا چاہئے جس کے تحت تمام مالی اور دفاعی معاہدے پارلیمنٹ سے توثیق کرانے لازمی قرار دیا جائے۔ سینیٹ کے الیکشن پر بات ہو رہی ہے اگر ہم اس پر بات نہیں کریں گے تو مناسب نہیں ہوگا‘ اس سے ہاو¿س میں تشویش آئی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یاد کرانا چاہتا ہوں سینیٹ نے 20 مئی 2016 ءکو ایک رپورٹ منظور کی تھی وہ رپورٹ سارے ایوان کی کمیٹی کی تھی‘ اسے انتخابی اصلاحات کی کمیٹی کو بھیجا گیا اس کمیٹی نے سینیٹ کی قرارداد کو رد کیا اور کہا کہ اس بیلٹ کا تقدس متاثر ہوگا۔ سینیٹ کے براہ راست الیکشن کرانا اس کا جواب نہیں ہے۔ رضا ربانی کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کا چیئرمین سینٹ سے متعلق بیان حقائق کے منافی ہے۔ قریبی ذرائع کے مطابق بطور چیئرمین سینیٹ آئین کی بالا دستی رضا ربانی کی اولین ترجیح رہی، بطور چیئرمین سینٹ حکومت وقت کے خلاف سب سے زیادہ 73 رولنگز دیں۔ سینٹ کی تاریخ میں پہلی بار رضا ربانی نے وفاقی وزراءکے ایوان میں داخلے پر پابندی عائد کی، بطور چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے وزیر خارجہ خواجہ آصف کی رکنیت بھی معطل کی، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب نہ کرنے پہ چیئرمین سینٹ نے حکومت کی سخت سرزنش کی۔ذرائع کے مطابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی بھی سابق صدر آصف زرداری کے طرز عمل سے نالاں ہیں ذرائع کے مطابق رضا ربانی نے بطور سینیٹر حلف نہ اٹھا کر عندیہ دیا ہے۔
رضا ربانی


اسلام آباد ( محمد فہیم انور/نوائے وقت نیوز) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے جمعہ کو بحیثیت چیئرمین آخری مرتبہ ایوان بالا سے خطاب کیا۔ ایوان بالا سے52سینیٹرز آج اپنی میعاد پوری ہونے پر ریٹائر ہو گئے۔ ان کی جگہ 52 نئے سینیٹرز 12مارچ کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ اور اسی روز چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا انتخاب بھی ہو جائے گا۔ میاں رضا ربانی نے تین سال تک جس خوش اسلوبی سے ہاﺅس چلایا اسے دیکھتے ہوئے سینٹ میں موجود تمام جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما کی خواہش تھی کہ میاں رضا ربانی مزید تین سال کیلئے چیئرمین سینٹ منتخب ہو جائیں۔ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کی مخالف جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے بھی اعلان کر دیا تھا کہ اگر پی پی پی نے میاں رضا ربانی کو چیئرمین کیلئے امیدوار کھڑا کیا تو ن لیگ اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرے گی۔ مگر نجانے کیوں وہ سابق صدر مملکت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری کی پہلی چوائس نہیں ہیں۔ زرداری ایک زیرک سیاستدان ہیں۔ وہ اپنے بڑے سے بڑے مخالف کو بھی اپنا ہم نوا بنانے کیلئے مذاکرات کی میز پر لانے میں نہ صرف کامیاب ہوئے ہیں بلکہ وہ اپنے مقاصد کے حصول میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ سینٹ کے الیکشن میں انہوں نے اکثریت حاصل کرنے کیلئے جو جوڑ توڑ کیا اس کے نتائج تو 12مارچ کو سامنے آ ہی جائیں گے مگر میاں رضا ربانی کو اپنا امیدوار نہ بنانے کا عندیہ دے کر انہوں نے اپنی ہی جماعت کے قائدین کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی حیران کر دیا ہے۔ میاں رضا ربانی کا نام ملک کے انتہائی قابل احترام پارلیمنٹیرین میں ہوتا ہے۔ ایوان بالا کے وقار کو ایوان بالا کی حیثیت دلانے میں جو کردار میاں رضا ربانی نے ادا کیا شاید ہی کوئی اور چیئرمین سینٹ ادا کر سکے۔ ریاستی اداروں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے موثر اقدامات کئے۔ اپریل2017ءمیں ایک بار وہ وزراءکو ایوان میں لانے میں ناکام رہے تو اظہار ناراضگی کے طور پر ایوان سے بغیر پروٹوکول گھر چلے گئے۔ اور حکومت انہیںاس یقین دہانی کے ساتھ منا کر لائی کہ حکومت وزراءکی حاضری کو یقینی بنائے گی۔ گرینڈ ڈائیلاگ کا عملی مظاہرہ بھی چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کے دور ہی میں ممکن ہوا۔ وہ ساتویں بار سینیٹر منتخب ہوئے ہیں اگر وہ آئندہ بھی چیئرمین بنتے تو سینٹ کی ساکھ میں یقیناً اضافہ ہوتا۔ وہ آئین اور جمہوریت کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں،21ویں ترمیم اور آرمی ایکٹ کے حق میں ووٹ دینا پڑا تو وہ رو پڑے تھے۔
ادارے انا

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...