سکھر (نامہ نگاران+صباح نیوز+ آئی این پی) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ میں آج پھر پوری قومی قیادت کو وزیر اعظم عمران خان کی اجازت سے دعوت دے رہا ہوں ، آئیے بیٹھیے، مل کر جو آپ نے نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کیا ہے اس پر اپنی آراء دیجیئے اور جو آپ کی آراء ہو گی ہم اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ سے مشاورت جاری رکھیں گے، عمران خان بھارت کو واضح پیغام پہلے دے چکے ہیںاور ا پنے عمل سے دے چکے ہیں اور 27فروری کی اپنی کارروائی سے دے چکے ہیں کہ ہم امن چاہتے ہیں لیکن اگر جارحیت کی گئی تو دفاع کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں او ر حق بھی رکھتے ہیں۔ مودی سرکار کی مجبوری انتخابات ہیں اور انتخابات تک ان کا لب و لہجہ ایسا ہی رہے گا۔ ان خیالات کا اظہار شاہ محمود قریشی نے سکھر میں میڈیا سے گفتگو میں کیا۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ آج کا نہیں یہ 1948سے زیر بحث ہے، اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل کی قراردادیں ہیں اورپاکستان آج بھی ان قراردادوں کا پابند ہے ، بھارت وعدہ کر کے راہ فرار اختیار کر رہا ہے،میں نے عمران خان کے بیان پر بلاول بھٹو کا ردعمل سنا اور دیکھا ہے اور ٹویٹ بھی پڑھا ہے میڈیا ایسے سوال کر کے صورتحال کو مزید خراب نہ کرے، اس وقت جوش کا نہیں ہوش کا وقت ہے۔ کلبھوشن کیس میں ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں ہمیں کھڑاہونا چاہیئے ۔ نواز شریف کو علاج کی ہر سہولت فراہم کی جائے گی ، یہ ان کا ستحقاق بھی ہے، یہ ان کا حق بھی ہے اور ہمارا فرض بھی بنتا ہے۔ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالہ سے کوئی دبائو نہیں اور عمران خان دبائو میں فیصلہ نہیں کرتا، عمران خان پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں ۔ میں نے پاکستان اور بھارت کے بارڈر پر کھڑے ہوکر کہا تھا یہ 1971 نہیں ، آج پاکستان کا حکمران یحییٰ خان نہیں بلکہ عمران خان ہیں ۔ افغانستان میں امن واستحکام کاقیام ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ سیاسی طور پر نریندر مودی دبائو کا شکار ہے اور آج بھارت کی اپوزیشن نریندر مودی پالیسیوں پر تنقید کر رہی ہے اور لوگ نریندر مودی سے پلوامہ واقعہ کی حقیقت کے بارے میں پوچھ رہے ہیں ۔ مودی سرکار کے بیانیہ کو لوگ بھارت کے اندر تسلیم نہیں کر رہے، ان حالات میں مودی امن گے گیت تو نہیں گائے گا، میڈیا مودی کی مجبوری کو سمجھے ۔سیاسی مصلحتوں کو سمجھنا ہوتا ہے اور ہمیں اس کا ادراک ہے اور سمجھ ہے اس لئے ہم نہیں چاہتے کہ کوئی گنجائش دیں جس کا بہانہ بنا کر انہیں جارحیت کا موقع ملے، ہم انہیں کوئی موقع نہیں دینا چاہتے۔ بھارتی کرکٹ ٹیم نے اپنی کھیل کی ٹوپیاں اتار کر فوج کی ٹوپیاں پہنیں یہ میڈیا اس کی نشاندہی کرے یا نہ کرے کیا آئی سی سی کو یہ دکھائی نہیںدے رہا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ آئی سی سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ پی سی بی کے کہے بغیر اس کا نوٹس لے۔ آج دنیا کی نظر پھر بدل رہی ہے ، اقوام متحدہ کی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے حوالہ سے رپورٹ چھپی ہے جو جون 2018 کی ہے ،مقبوضہ کشمیر میں بھارت جو ظلم کر رہا ہے ، انسانی حقوق کو جو پامال کر رہا ہے، پیلٹ گن کا استعمال کر رہا ہے، خصوصی قوانین کو استعمال کر کے لوگوں پر ایک بربریت طاری کی ہوئی ہے اس کا نوٹس اقوام متحدہ نے لیا ہے۔ یہ رپورٹ سفارش کر رہی ہے کہ کمیشن آف انکوائری بنایا جائے جو سارے حالات کا جائزہ لے کر دنیا کو بتائے کہ وہاں صورتحال کیا ہے۔ آج بھارت کے اندر سے آواز اٹھ رہی ہے کہ کشمیر آپ کھو چکے اور کشمیر آپ کھو رہے ہیں ۔ کشمیریوں کو حق خودارادیت دینا ہوگا۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کہہ رہے ہیں ، یہ میر واعظ عمر فاروق اور سید علی شاہ گیلانی کہہ رہے ہیں ، یہ یسین ملک کہہ رہے ہیں اور پوری حریت قیادت کہہ رہی ہے ، یہ بھارت کی اپوزیشن کہہ رہی ہے، یہ بھارت کے دانشور کہہ رہے ہیں ، آج میڈیا کے پلیٹ فارم سے پھر اپوزیشن لیڈر میاں محمد شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور پارلیمنٹ کے نمایاں پارلیمانی رہنمائوں کو دعوت دے رہا ہوں کہ آپ نے 2014 میں نیشنل ایکشن پلان کے ذریعہ ایک اتفاق رائے پیدا کیا اور آج میں 2019 میں بیٹھا ہوں اور فرق یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق تمام جماعتوں نے کر لیا مگر اس پر عمل پیرا ہونے کی جرات کسی میں نہ تھی ۔ موجودہ حکومت نے ہمت کی ہے اور پاکستان کے اندرونی اور بیرونی مفادات کو دیکھتے ہوئے ایک فیصلہ کیا ہے ۔ ہم کلبھوشن کیس کے فیصلے کے منتظر ہیں۔بھارت کو او آئی سی میں کوئی نمائندگی نہیں دی گئی، بھارت نہ کل او آئی سی کا رکن تھا اور نہ آج او آئی سی کا رکن ہے ، نہ بھارت کل آبزرور تھا اور نہ آج ہے، یہ نمائندگی نہیں ، بھارت کا او آئی سے کوئی تعلق نہ کل تھا نہ آج ہے، جو میزبان ملک ہے انہوں نے سشما سوراج کو ایک اجلاس سے خطاب کرنے کی دعوت دی ، وہ آئیں اور انہوں نے خطاب کیا ، پاکستان سے مشاورت نہیں کی گئی تھی ، سیکرٹری جنرل او آئی سی نے اعتراف کیا ہے کہ نہ اس دعوت کا ہمارے علم میں تھا اور نہ ہم سے مشاورت کی گئی، جو ہمارے میزبان دوست ہیں ۔میں آج بھی یو اے ای کی محبت کا اعتراف بھی کرتا ہوں اور اس کو سراہتا بھی ہوں ، اب اگر پلوامہ کا واقعہ ہو چکا ہوتا تو وہ یقیناً اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرتے ، یہ دعوت جا چکی تھی، یہ ایسے ہے کہ آپ کے بیٹے کی خوشی ہے اور آپ ایک مہمان کو دعوت دے دیتے ہیں اور اس کے بعد کوئی چھوٹی موٹی بات پیدا ہو جاتی ہے تو آپ دیا ہوا کارڈ واپس تو نہیں لیتے ، وہ دعوت دے چکے تھے اور اس کو واپس لینا سفارتی آداب کے خلاف تھا اور انہوں نے اس کو نبھا لیا اور ہم نے مسکرا دیا اور بات ختم ہو گئی۔ او آئی سی اجلاس میں کشمیر سے متعلق جو قرارداد پاس ہوئی ہے اتنی ٹھوس اور اتنی جامع اور اتنی واضح قرارداد ماضی میںکوئی ہے تو مجھے دکھا دیں تو پھر گھبراہٹ کس بات کی ہے۔پی ٹی آئی حکومت ملکی ادارے اور معیشت بہتر کر رہی ہے۔ اگر بھارت نے جارحیت کی تو بھرپور جواب دیں گے۔