اسلام آباد ( خصوصی رپورٹر )سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ میں فوجی عدالتوں سے سزاپانے والے ملزمان کی اپیلوں پر پشاور ہائیکورت میں سماعت روکنے کی وزارت دفاع کی استدعا مسترد کردی عدالت کا کہنا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے دیں دوران سماعت کیس کاروائی کو کیسے روک سکتے ہیں سپریم کور ٹ نے زیر التوا مقدمات میں ملزمان کے خلاف الزامات اور شواہد کا چارٹ بھی طلب کر تے ہوئے بری ہونے والے ملزمان کی تفصیلات بھی فراہم کرنے کا حکم دے دیاسپریم کورٹ میںفوجی عدالتوں سے سزا پانے والے71 ملزمان کی بریت کے خلاف وزارت دفاع کی اپیلوں پر سماعت جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے موقف اپنایا کہ فوجی عدالت کا ٹرائل کا اپنا طریقہ کار ہے ایکٹ میں فوجی عدالت سے سزا کے خلاف اپیل کا طریقہ کار بھی قانون میں موجود ہے ذیادہ تر فیصلوں میں ضابطہ فوجداری قوانین سے مطابقت ہوتی ہے جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ ملزمان کن جرائم میں ملوث ہیں اور کب یہ جرائم ہوئے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ 71 اپیلیں ہیں ہر ملزم پر علیحدہ الزام ہے ہائیکورٹ نے فیصلہ میں نہ قانون کو مدنظر رکھا اور نہ ہی حقائق کوتحقیقات اور ٹرائل کے دوران ملزمان کو بری بھی کیا جاتا ہے جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کے اعترافی بیان کے علاوہ کوئی شواہد ہیں صرف ایف ائی آر اور اعتراف جرم کوئی شواہد نہیں ملٹری قواعد میں جرم تسلیم کرنا قبول نہیں کیا جاتا ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکورٹ مارشل میں جرم تسلیم کرنے پر فوری سزا سنائی جا سکتی ہے کم از کم حراستی مراکز کے آ فیسر کا بیان ضرور ریکارڈ پر موجود ہوتا ہے ملزمان کے خلاف گواہان ، ایف آئی آرز اور متعدد گواہان موجود ہیں فوجی عدالتوں سے عدم شواہد پر پانچ ملزمان بری بھی ہوئے، جسٹس منیب اختر نے کہا بظاہر ملزمان کیخلاف اقبال جرم کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں جسٹس مشیر عالم نے کہا عدالت کوایک چارٹ بنا کر دیں جس میں الزامات اور شواہد کی تفصیلات سامنے گئے ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ملزمان سے ہونے والی ریکوری کی تفصیلات بھی موجود ہیں،عدالت خصوصی حالات کو بھی مدنظر رکھے دہشتگردوں کیخلاف کوئی گواہی دینے کو تیار نہیں تھاپارلیمان نے حقائق مدنظر رکھتے ہوئے فوجی عدالتیں بنائیں فوجی عدالتوں پر آرٹیکل 10 اے کا اطلاق نہیں ہوتا، جسٹس منیب اختر نے کہا قانون شہادت کے تحت فوجی افسر کے سامنے اعتراف جرم کی کوئی حیثیت نہیں، ملزم کا اعترافی بیان صرف مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہو سکتاایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا حراستی مرکز کا مجاز افسر عدالت میں اعترافی بیان لینے کا حلف دیتا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہاہائی کورٹ نے قرار دیا تمام اعترافی بیانات کی لکھائی ایک جیسی ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا رولز میں جو فارمیٹ دیا گیا ہے بیان اس کے مطابق ہی لکھا جاتا،ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ٹرائل میں کوئی زخمی پیش ہوا نہ پوسٹمارٹم رپورٹ، فوج کے کسی شہید کا پوسٹمارٹم نہیں کرایا جاتا،ہائی کورٹ نے اپیل میں استعمال ہونے والا اختیار آئینی درخواست میں کیافوجی عدالتوں میں ججز اور گواہان سب حلف لیتے ہیں،ہائی کورٹ نے ضابطہ فوجداری کو مدنظر رکھ کر فیصلہ دیافوجی عدالتوں پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق نہیں ہوتاپشاور ہائی کورٹ نے مفروضوں کی بنیاد پر فیصلہ دیا، دہشتگرد جنت کا ٹکٹ سمجھ کر اعتراف جرم کرتے ہیں، ملزم جمشید کے وکیل لائق سواتی نے موقف اپنا یا کہ میرے موکل کو جو وکیل دیا گیا وہ ڈمی تھا، میرے موکل جمشید علی کو 2012 میں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا، جمشید علی کو پانچ سال بعد اعترافی بیان کیلئے پیش کیا گیا سپریم کورٹ کی مداخلت پر جمشید علی کے اغوا کا مقدمہ درج ہوا، عدالت جائزہ لے کہ آئین بالادست ہے یا آرمی ایکٹ،ہم بھی دہشتگردوں اور دہشتگردی دونوں کیخلاف ہیں۔
فوجی عدالتوں کے سزایافتہ اورپشاورہائیکورٹ سے رہاہونیوالے ملزموں کی تفصیلات طلب
Mar 10, 2020