کرونا: بائیوٹیر رزم یاسماوی آفت

کرونا وائرس چین سے نمودار ہو کر کئی ممالک میں پہنچ گیاہے۔ مگر اس کا پراپیگنڈااس طرح سے کیا گیا کہ اس کا خوف پوری دنیا میں پھیل گیا۔ یوں لگتا ہے دنیا کا ہر تیسرا شخص اس وبائی مرض سے متاثر ہے۔ میڈیا میں اس مرض سے ہونے والی ہلاکتوں ہسپتالوں میں داخل ہونے والے لوگوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہے۔ ساتھ اس مرض کو لا علاج بھی قرار دیا جاتا ہے۔ چین اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہے، ہلاکتیں بھی وہیں سب سے زیادہ ہو رہی ہیں۔ حیران کن پہلو مگر یہ بھی ہے کہ چین میں پچاس ہزار سے زایدمریضوں کو صحت یاب ہونے پر ہسپتالوں سے ڈسچارج بھی کیا گیا۔ اتنے لوگ اگر تندرست ہو ئے ہیں تو یقینا اس کا علاج موجود ہے۔ پاکستان میں بھی کرونا کی موجودگی ظاہر اور ثابت ہو چکی ہے۔ اب تک صرف پانچ مریض سامنے آئے اور یہ تمام ایران سے پاکستان آئے تھے۔ پانچ میں سے تین صحت یاب ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ تاثر پاتا جاتا ہے کہ کرونا ایک مریض سے دوسرے شخص کو پاس سے گزرنے سے بھی لگ جاتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ایران سے واپس آنے والے مریض اپنے گھروں میں کئی روز رہے اس دوران تو بستیوں کی بستیاں کرونا کا شکارہو جانی چاہئیں تھیں ،مگر کوئی ایک بھی متاثر نہیں ہوا۔ اول تو کسی نے احتیاط نہیں کی ہو گی اگر کسی نے کی ہے تو باقی لوگ بھی احتیاط کرنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ایسے امراض بے احتیاطی کے باعث آگے پھیلتے ضرور ہیں مگر صرف 8سے دس فیصد لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔دنیا میں کرونا کا اس قدر خوف پھیلا کہ چین کی معیشت ڈوب گئی۔ وہاں صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں۔
اگر یہ سماوی آفت ہے تو ہم مسلمانوں کو تائب ہونا ہو گا اگر یہ کسی سازش کے تحت وائرس پھیلایا گیا ہے جھوٹاپراپیگنڈا کیا گیاہے اس صورت میں بھی توبہ ہی کرنا ہو گی۔ ایک طبقہ اسے سازش کے تحت پھیلایا گیا وائرس قرار دیتا ہے جسے بائیو ٹیر رزم کہا جاتا ہے۔چین معاشی طور پر سْپر پاور بن رہا تھا۔ اس کے غبارے سے بھی ہوا نکالنا مقصود تھا۔ لہٰذا اس کی معیشت ڈبودی گئی۔ دوسرا بڑا نشانہ اس وائرس کا ایران بنا ہے۔ کچھ حلقے اسی بنا پر کرونا کو بائیوٹیر رزم قرار دیتے ہیں۔ دہشتگردی کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی یہ دنیاپرانی ہے، دہشت گردی کی سب سے خطرناک اور مہلک صورت بائیو ٹیررزم ہے، جس میں وائرس، بیکٹیریا، فنجائی یا زہریلے کیمیکلز کو انسانوں ، جانوروں ، پودوں پر بطور ہتھیار کسی قوم یا ملک کے خلاف مذموم مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
جنگ عظیم دوم کے بعد اقوام متحدہ وجود میں آئی جس کے تحت انسانیت کو جنگوں کی ہولناکیوں سے بچانے اور انسانیت دشمن اقدامات کی حوصلہ شکنی کے لیے بہت سے اصول و قوانین وضع کیے لیکن بدقسمتی سے لیبارٹریز میں تیار کردہ مہلک جراثیموں و انسانیت دشمن حیاتیاتی حملوں کی حوصلہ شکنی کے لیے خاطرخواہ توجہ نہ دی گئی، بیشک اقوام متحدہ کے وجود کے بعد ایک لمبے عرصے تک دنیا جنگوں کی ہولناکیوں سے بچی رہی لیکن حیاتیاتی حملے بدستور جاری ہیں ، کبھی فصلوں میں بیماری پھیلا کر مخصوص گروہ یا افراد نے غریبوں کی محنت کو نچوڑ لیا تو کبھی انسانوں میں مختلف وباء کے پھیلائو کے بعد ادویہ فروخت کرکے مال بٹورا جاتا رہا، میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے موقع پر بل گیٹس نے بائیو ٹیررزم کے بڑھتے ہوے خدشات پہ تشویش کا اظہار کرتے ہوے دنیا کے حکمرانوں کو اسکے خلاف اٹھ کھڑا ہونے اور حیاتیاتی حملوں کے انسداد و بچائو کیلئے سنجیدہ ہونے پر زور دیا لیکن بدقسمتی سے اس پر ابتک کسی طرف سے بھی سنجیدگی سے آواز بلند ہوتے نظر نہیں آئی، بل گیٹس نے خبردار کیا تھا کہ حیاتیاتی حملے نیوکلئیر حملوں سے زیادہ مہلک ہیں اور اسکے اثرات لامحدود حد تک خطرناک ہیں جو ناقابل یقین حد تک تباہی پھیلا سکتے ہیں۔
کرونا وائرس جو بھی ہے ہمیں اس سے ہر صورت بچنا اور احتیاط برتنی ہے۔ اس کے لیے بنیادی طور پر منہ اور ناک کے ذریعے جراثیم کو جسم کے اندر جانے سے روکنا ہوتا ہے۔ ماسک بہترین حفاظتی اقدامات کی ایک شکل ہے۔ جیسے ہی اس وبا کی تشہیر ہوئی ماسک نایاب اور مہنگے ہوگئے۔ان کو سرجیکل ماسک کہا جاتا ہے۔جو ڈاکٹرز اور عملہ سرجری کے دوران پہنتا ہے۔ اس میںکوئی کیمیکل استعمال ہوتا ہے نہ کسی ٹیکنالوجی کا عمل دخل ہے۔ آپ گھر میں بھی ٹشو سے بنا سکتے ہیں۔ صاف ستھرا رومال تو لیہ صافہ اس مقصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ خواتین نقاب اور دوپٹے کو استعمال کر سکتی ہیں۔ یہ مرض جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایسے جانور ہیں ہی نہیں جن سے کرونا پیدا ہو کر انسانوں میں منتقل ہو سکے۔ اس کے باوجود حکومت نے حفاظتی اقدامات وہ بھی وسیع سطح پر کئے ہیں۔ اللہ کریم پاکستان اور پوری انسانیت کو ایسے امراض سے محفوظ رکھے۔

محمد یاسین وٹو....گردش افلاک

ای پیپر دی نیشن