IDES OF MARCH

(1)گومہینے کی 13یا 15تاریخ کو مارچ کے علاوہ بھی کئی مہینوں سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن مارچ کی 13 تاریخ خصوصی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ مجموعی تاثر یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ انہونی ہو جاتی ہے۔ جولیس سیزر روم کا بہت بڑا جرنیل تھا۔ قتل ہونے سے پہلے اس کے ایک دوست نے جو علم نجوم میں بھی شدبد رکھتا تھا۔ اسے متنبہ کیا تھا کہ BEWARE OF THE IDES OF MARCH.اس نے اسے درخور اعتنا نہ جانا۔ نتیجتاً روم کی سینٹ میں اپنے عزیز دوست بروٹس کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ YOU TOO BRVTUS جاں بلب سیرز کے منہ سے نکلے ہوئے ان شبدوں نے ایک محاورے کا روپ دھار لیا ہے۔ اب ویسے ہی اوہام پرستی میں 13 کے ہندسے کو منحوس تصور کیا جاتا ہے۔ شاید بتانا تو مشکل ہو کہ ایسا کیوں ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر شخص کے سینے میں کئی بتان ہیکل ادہام ہوتے ہیں۔ لوگ اس تاریخ کو کوئی نیا کام کرنے یا سفر سے اجتناب برتتے ہیں۔ گو اس کا کوئی عقلی جواز نہیں ہے، مذہب بھی انہیں فاسد خیالات قرار دیتا ہے لیکن آدمی کے اندر چھپا ہوا ایک انجانا خوف اس کے پائوں میں بیڑیاں ڈال دیتا ہے۔ وہم کی بیماری اس تاریخ تک محدود نہیں ہے۔ بدقسمتی سے یہ لاعلاج ہے۔ بڑے بڑے شہنشاہ اور حکمران بھی اس کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکے۔ ایوب خان کے دور میں عیدالفطر جمعہ کے روز آگئی۔ اسے بتایا گیا کہ ایک دن میں دو خطبے حکمران پر بھاری پڑ سکتے ہیں۔ وہ اس قدر گھبرایا کہ عید ایک دن پہلے کروا ڈالی۔ بھٹو دور میں بھی ایسا ہی ہوا۔ مولانا کوثر نیازی کے سمجھانے کے باوجود اس نے پروا نہ کی۔ بعد میں جس انجام سے اسے دوچار ہونا پڑا، وہ مولانا کی نظر میں تو اسی غلطی کا خمیازہ تھا۔ انڈونیشیا کا صدر تسوینکارونو گردے سے پتھری نہ نکلوا سکا، اسے کسی نجومی نے بتایا تھا کہ (HE WILL DIE BY STEEL.)
(2)حیران کن بات ہے کہ برصغیر میں اس قدر دلکش مہینے کو اس قدر بدشگونی سے دیکھا جائے۔ یہ وہ ماہ ہے جس کا انتظار شعراء کو سارا سال رہتا ہے۔ اس مہینے تمام فضا معطر ہوتی ہے۔ شاخوں سے ہری بھری، نرم و نازک کو نپلیں پھوٹتی ہیں۔ اشجار زمردیں لباس زیب تن کرتے ہیں۔ پھول اپنے جوبن پر ہوتے ہیں۔ گل لالہ و نرگس ونسترن دیکھتے ہی عشاق اور شعراء کرام پر وجد کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ جنون کے آثار نمودار ہوتے ہیں پھر جگر کھودنے لگانا خن اور فصل لالہ کاری ہے۔ چناروں سے سرد آتش برستی ہے۔ بلبل کے نغمے سن کر کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ اسے ناشاد کہنے والے سے کچھ بھول ہوئی ہے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ شاعر اس عطربینر موسم سے لطف اندوز نہ ہوئے ہوں۔ جناب فیض کا شمار اُن کم نصیبوں میں کیا جا سکتا ہے۔
نہ گل کھلے ہیں، نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
اس کی بھی ایک معقو ل وجہ تھی، حکومت وقت نے بغاوت کے جرم میں انہیں پابند سلاسل کر دیا تھا۔ عام آدمی حیران ہوتا ہے کہ ایک مقبول عوامی شاعر کو قید میں رکھنے میں کیا مصلحت کارفرما تھی۔ قصور دراصل فیض سے زیادہ اس ڈگری کا تھا جو انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی تھی۔ وہ ایم اے عربی کے علاوہ ایم اے انگلش بھی تھے۔ اس حاکموں کی زبان کا اپنا مزاج ہے۔ الگ تقاضے ہیں۔ یہ محض کلنپسری اور الائچی خورد پر اکتفا نہیں کر سکتی۔ زردالو پان، صرف زبان اور ہونٹ سرخ کرسکتا ہے، زندگی کی رنگینیاں فراہم نہیں کر پاتا۔ گو بغاوت کا پلان بوٹوں والوں کا تھا مگر ایک آدھ ’’بلڈی سویلین‘‘ کی شمولیت کو بھی ضروری گرداناگیا۔ اگر سکیم کامیاب ہو جاتی تو محترم فیض صاحب نے وزیر خارجہ بننا تھا۔ اس صورت میں اقوام متحدہ کے دربار شعروشاعری سے گونج اٹھتے۔ سکیورٹی کونسل میں ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ مشاعرے ہوتے، لوگ اردو غزل کے ساتھ انگریزی، جرمن اور فرانسیسی شاعری کے بھی مزے لوٹتے مگر یوں نہ تھا۔ میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے۔ اسیری نے محترم کی شاعری کو آفاقیت بخشی، تنگ و تاریک کمروں میں لکھے گئے اشعار نے قلوب کو منور کیا‘ اذہان کو جلا بخشی، آج اگر مولانا محمد حسین آزاد زندہ ہوتے تو ’’بقائے دوام کے دربار‘‘ میں انہیں مسندنشین کرتے۔ اب جبکہ وہ زندگی کی قید سے ہی آزاد ہو گئے ہیں تو عالم ارواح میں ضرور سوچتے ہونگے کہ سودا گھاٹے کا نہیں تھا۔
(3)گومیں شاعر تو نہیں ہوں مگر مجھے مارچ اور دسمبر کے مہینے بہت پسند ہیں۔ میں جہاں بھی رہا وہاں پر مشاعروں کا بندوبست ضرور کیا۔ 1992-93ء میں ملتان میں جشن بہاراں کے سلسلے میں عالمی مشاعرے کروائے۔ عالمی اردو کانفرنس اس کے علاوہ تھی۔ تمام دنیا سے شعراء اور اردودان بلائے گئے، ہندوستان سے بالخصوص۔ گوپی چند نارنگ، جگن ناتھ آزاد اور ڈاکٹر خلیق انجم آئے۔ صدارت وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں نے کی۔ میں نے اپنے افتتاحی خطبے میں اردو ادب اور زبان کی ترقی و ترویج کی بات کی۔ وزیراعلیٰ کو بتایا کہ وہ تاریخ کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔تاریخ نے یہ دیکھنا ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کئے ہیں۔ وزارت اعلیٰ تو آنے جانے والی چیز ہے۔ تقریر کا اختتام اس شعر پر کیا۔ ؎
حسن والے حسن کا انجام دیکھ
ڈوبتے سورج کو وقت شام دیکھ
ہال سے باہر نکلے تو منو بھائی نے ازراہ تفنن کہا کہ ’’ مغلوں کے زمانے میں مشہور تھا کہ جس کا ملتان مضبوط ہے، اس کا دلی مضبوط ہے لیکن فی زمانہ جو ملتان مضبوط کرتا ہے وہ لاہور کمزور کر بیٹھتا ہے۔‘‘ وزیراعلیٰ کیسا ہی درویش منش کیوں نہ ہو‘ وزیراعلیٰ ہی ہوتا ہے۔
وہ نازک مزاج شاہاں تاب سخن نہ دارند
ان کی بات کسی حد تک درست تھی۔ وائیں صاحب نے تو کوئی اتنا برا نہ منایا مگر سیکرٹریٹ کی غلام گردشوں میں بھونچال آگیا۔ ایک ڈپٹی کمشنر کی یہ ہمت! آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پروازہے کیا؟ چیف سیکرٹری نے میری جواب طلبی کر ڈالی۔ وزیراعلیٰ کی شان میں گستاخی کیوں کی ہے؟ احتیاطاً نوٹس کی ایک کاپی چیف منسٹر کو بھجوا دی۔ انہیں اصل دکھ وزیراعلیٰ کی شان میں گستاخی کا نہیں تھا۔ غصہ یہ تھا کہ اردو زبان کی بات کیوں کی گئی ہے۔ اب میں انہیں کیا جواب دیتا۔ کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی تھا سو کہہ ڈالا۔ جواباً لکھا۔ ؎
ہر دل جو قحط اَنا سے غریب ٹھہرا ہے
میری زبان کو زر التماس کیا دے گا
انگریز تو اس ملک سے چلا گیا ہے مگر اپنی باقیات چھوڑ گیا ہے۔ ویسے بھی پنجاب میں اس دور میں جتنے چیف سیکرٹری رہے‘ مجھ سے بوجوہ ناراض ہی رہے۔
(4)دسمبر پسند کرنے کی وجہ خالصتاً جذباتی ہے۔ جب سے عرش صدیقی صاحب کی نظم ’’ اسے کہنا دسمبر آگیا ہے‘‘ پڑھی، اس سرد مہینے میں وجود میں گرمائش محسوس کی۔ عرش صاحب سے احترام کا رشتہ تھا۔ نہایت عمدہ شاعر‘ خلیق اور وضعدار انسان تھے۔ رحیم یار خان میں مشاعرے میں ملاقات ہوئی اور پھر زمزمہ محبت جاری ہو گیا۔ انگریزی ادب کے پروفیسر ہونے کے باوصف انہیں اردو زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ اس ملاقات کو وہ (LOVE AT FIRST SIGHT)قرار دیتے تھے۔
(5)ہماری سیاست نے بھی کئی مقامی شیکسپیئر پیدا کئے ہیں۔ شیکسپیئر نے اپنے ڈرامے جولیس سیزر میں لکھا تھا کہ (BEWARE OF THE IDES OF MARCH) اس اصطلاح کو پہلے پہل بڑے پیر صاحب پگاڑا نے استعمال کیا۔ ’’مارچ میں ڈبل مارچ ہوگا۔‘‘ اپنے آپ کو وہ GHQ کا خاص آدمی قرار دیتے تھے۔ وہ ستارہ جسے علامہ اقبال نے گردش افلاک میں خوار و زبوں قرار دیا تھا۔ اس سے فال نکالتے اور آنے والے کل کی پیشگوئی کرتے۔ صحافی نمک مرچ لگا کر ان کی پیشگوئیاں چھاپتے۔ مارچ گزر جاتا ’’ککھ نہ ہلتا‘‘ مگر گلہ کوئی نہ کرتا۔ ویسے تو برصغیر میں بے شمار پیر ہیں لیکن مریدان باصفا صرف پیر صاحب کو ملے ہیں۔ جن لوگوں نے حسن بن صباح کے فدائین کے قصے پڑے ہیں‘ انہیں حروں کی طاقت اور اطاعت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ ان کا نعرہ بھی بھیج پگاڑا ہے۔ باایں ہمہ پیر صاحب طبعاً حلیم طبع اور صلح کل انسان تھے۔ ان کے والد صاحب نے انگریز کے خلاف پرچم جہاد بلند کیا تھا لیکن پیرصاحب کے افکار مختلف تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند صبغت اللہ راشدی پیر پگاڑا بنے ہیں لیکن سیاسی وارث شیخ رشید ہیں۔ یہ بھی آنکھیں بند کرکے مارچ میں کچھ نہ کچھ ہونے کی پیشگوئی کر دیتے ہیں۔ جب کچھ نہیں ہوتا تو پھر اگلے مارچ کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں۔ دیکھیں اس مرتبہ کیا عذر لنگ پیش کرتے ہیں۔
(6)ان کی دیکھا دیکھی اب دیگر سیاسی لیڈروں نے بھی مارچ میں کسی دھماکے کی نوید سنا دی ہے۔ عزیزی بلاول بھٹو‘ مولانا فضل الرحمن‘ مولانا سراج الحق‘ سب نے اپنی اپنی ڈفلی پکڑ رکھی ہے اور اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔ اس میں سیاسی بصیرت کم اور خواہشات کی جھلک زیادہ نظر آتی ہے۔ قطع نظر اس بات کے یہ سرخرو ہوتے ہیں یا شرمندگی سے دوچار۔ ایک بات روز روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے اور اس میں کسی راکٹ سائنس یا خبر کی ضرورت نہیں ہے۔ وطن عزیز میں ہر آنے والا دن ڈرائونا مارچ نظر آرہا ہے۔
گیس کے بل اختلاج قلب پیدا کر رہے ہیں۔ بجلی کی قیمت اذہان کو مائوف کر رہی ہے۔ بیروزگاری نے اعضاء شل کر دیئے ہیں۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ مکان بنائے جا رہے ہیں یا گرائے جا رہے ہیں۔ تسلیاں دی جا رہی ہیں کہ لوگ چند سال صبر کریں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو! اس قوم نے جہاں 70برس طفل تسلیوں پر گزارے ہیں‘ وہاں چند برس اور بھی گزر جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن