اطمینان کس طرح حاصل ہو گا 

زندگی میں وہ لوگ پُرسکون رہتے ہیں جو نہ ملنے والی خوشیوں سے زیادہ ان نعمتوں پر شکر کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں!  سکون اور اطمینان کس طرح حاصل ہوتا ہے۔ اس کیلئے نفس مطمئنہ کی ضرورت ہے۔ پی ٹی وی پر دکھائی جانے والی ترک ڈرامہ سیریل ’’راہ عشق‘‘ کی ایک قسط میں نفس لوامہ کے بارے میں بتایا گیا، یعنی نفس کی ایک قسم جو انسان کو برے کام کرنے پر ملامت کرتی ہے۔ ایک نفس امارہ بھی ہے جو برائی کی طرف رغبت دلانے والا ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان روحانیت کو سپر سائنس کا درجہ دیتے ہیں۔ وہ خود ماڈرن ازم سے روحانیت کی طرف آئے ہیں۔ ہاتھ کی چیچی میں انگوٹھی اور ایک ہاتھ میں تسبیح پکڑے رکھنا انکی روحانیت کی علامت ہے۔ عوام کو انکی اس روحانیت سے کوئی سروکار نہیں، وہ تو اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ علماء کا لفظ سائنٹسٹ اور کائناتی مفکروں کیلئے بھی استعمال ہوا ہے۔ وہ لوگ جو کائناتی نظام کا مطالعہ کرنے اور مسلسل مشاہدات و تجربات کے بعد فطرت کی قوتوں کو مسخر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو حضرات، علماء کہلاتے ہیں، یہ سائنس کے علوم کی مبادیات تک سے واقف نہیں ہوتے، نہ انسان کی عملی زندگی سے کچھ واسطہ۔ نہ جانے وزیراعظم عمران خان نے روحانیت کو سپر سائنس کا درجہ کیسے دیدیا؟ ہمارے ہاں ’’تزکیہ نفس‘‘ تصوف کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مختلف ریاضتوں اور مراقبوں سے انسانی خواہشات اور جذبات کو فنا کر دیا جائے۔ چوں کہ یہ چیزیں روحانی ترقی کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔’’روحانی ترقی‘‘ بھی تصوف ہی کی اصطلاح ہے۔ اس کی رو سے عقیدہ یہ ہے کہ نفس انسانی (انسانی ذات) درحقیقت ذات خداوندی کا ایک جزو تھی جو کسی طرح اپنی اصل سے الگ ہو کر مادہ کی دلدل میں آن پھنسی ہے۔ اسے مادی آلائشوں سے پاک و صاف کر دیا جائے تا کہ یہ پھر اپنی اصل کے ساتھ جا کر مل جائے۔ یہ انسان کی روحانی ترقی کا منتہیٰ ہے اور انسانی ذات کو مادی الائشوں سے پاک اور صاف کرنا تزکیہ نفس اور نفس کُشی کہلاتا ہے۔ یہ تمام تصورات غیر قرآنی ہیں۔ تصوف کا لفظ قرآن کریم میں نہیں آیا۔ انسانی ذات کی نشوونما، ان مستقل اقدار کے مطابق زندگی بسر کرنے سے ہوتی ہے جو قرآن کریم میں دی گئی ہیں اور ایسا کچھ قرآنی معاشرہ میں ہو سکتا ہے۔ انسانی ذات کے اس طرح نشوونما پا جانے کو تزکیہ کہا جاتا ہے۔ اسے تصوف کی تجردگاہوں یا سلوک و مراسم سے کچھ تعلق نہیں۔ یہ سیدھے سادے الفاظ میں ایک مومن و متقی کی زندگی کا نام ہے۔ ’’ارمغان حجاز‘‘ میں علامہ اقبال کے اشعار ہیں:۔؎ 
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر 
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات 
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے 
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے 
جہاں تک اطمینان یا طمانیت کا تعلق ہے تو یہ انسان کو علیٰ وجہ البصیرت حاصل ہوتا ہے۔ یہ اس یقین (ایمان) کی بنیادی شرط ہے جس پر اعمالِ حیات کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ اندھی عقیدت سے جو اطمینان حاصل ہوتا ہے وہ فریبِ نفس کہلاتا ہے۔ اطمینان نہیں۔ ان دونوں میں فرق کرنا نہایت ضروری ہے۔ 
میرے دوست ماہر امراض جلد ڈاکٹر سعید اقبال سعدی معروف شاعر اور دانشور ہیں۔ آج کل ان کا زیادہ رجحان مزاحیہ شاعری کی طرف ہے۔ ان کی ایک تحریر ’’نفسیاتی حقائق‘‘ کے عنوان سے ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’آپ کی مشکل نوکری، ہر بے روزگار کا خواب ہے۔ آپ کا پریشان کرنے والا بچہ، کئی بانجھ لوگوں کا خواب ہے۔ آپ کا چھوٹا سا گھر، ہر بے گھر کا خواب ہے۔ آپ کا تھوڑا پیسہ، کئی قرض داروں کا خواب ہے۔ آپکی صحت، کئی بیماروں اور محتاجوں کا خواب ہے۔ آپ کی خوشی، ہر اداس انسان کا خواب ہے۔ اللہ آپ کے گناہ چھپاتا ہے، یہ ہر بے نقاب گناہ گار کا خواب ہے۔ اپنی زندگی میں شکر اور اطمینان کا طریق اپنائیں‘‘ ۔ 
انسانی ذات، قوانین اور احکام خداوندی سے ایسا استحکام حاصل کر لیتی ہے، جس سے وہ زندگی کی اگلی ارتقائی منزل میں جانے کے قابل ہو جاتی ہے (اسے جنت کی زندگی کہا جاتا ہے) اسکی اس کیفیت کو نفسِ مطمئنہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دورِ حاضر کی اصطلاح میں اسے BALANCED PERSONALITY کہا جاتا ہے لیکن اس کا تصور، عام نفسیاتی تصور سے مختلف ہے۔ واصف علی واصف صاحب کا ایک دوست ان سے ملنے آیا۔ انھوں نے اس کیلئے چائے منگوائی۔ وہ بولا، میں بڑا پریشان ہوں۔ ملک کے حالات بڑے خراب ہیں۔ واصف صاحب نے پوچھا۔ تم نے خرا ب کیے ہیں؟ وہ بولا، نہیں۔ انھوں نے کہا۔ تم ٹھیک کر سکتے ہو؟ وہ بولا، نہیں۔ تو واصف صاحب نے کہا۔ ’’فیر چاء پی‘‘ ۔کبھی مایوس مت ہونا۔ اندھیرا کتنا گہرا ہو۔ دنیا کی بے ثباتی اور بندے کی اوقات کو سعید آسی نے ایک شعر میں بیان کر دیا ہے:۔؎ 
اپنے پاؤں پہ آتا ہے، نہ اپنے پاؤں پہ جاتا ہے 
تیری کیا اوقات ہے بندے جس پہ توُ اتراتا ہے 

ای پیپر دی نیشن