اعتراضات کے جواب میں چند گزارشات !

 مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ گذشتہ بدھ کو شائع ہونے والے میرے کالم کے ردعمل میں گالیوں کے ساتھ مجھے شدید قسم کے خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی مل سکتی ہیںاس لئے کہ میں نے تو پنجابی وسیب کی محبت میں اپنے کالم میں شرم و حیا اور غیرت پر مبنی اُن سنہری اقدار کی بات کی تھی جو کسی بھی رنگ، نسل ، ذات پات اور امیر غریب کی تفریق کے بغیر ہم سب پنجابیوں کا مان ہیں اورجس کا ذکرہمارے بڑے بوڑھے آج بھی بڑے فخر سے کرتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جس پر شرم و حیا اور غیرت کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہمارے معاشرے کا کوئی بھی ذی شعور فردمعترض ہو ۔مجھے برا بھلا کہنے اور دھمکیاں دینے والوں کو غالباََ اس بات کا رنج تھا کہ میں نے اپنے کالم میں اُن مٹھی بھر افراد کی مذمت کیوں کی ہے جو پنجابی تہذیب و ثقافت کے نام پرہماری اقدار کے منافی مخلوط ناچ گانوں جیسی غیر سنجیدہ حرکا ت سے دانستہ یا نادانستہ پنجابی وسیب کا تاثر خراب کر رہے ہیں۔اس کالم کے ردعمل میں ان احباب کی طرف سے مجھے جن گالیوں اور دھمکیوں سے نوازا گیا میرے لئے وہ تو حیران کن تھا ہی لیکن اس سے بھی زیادہ حیرانی مجھے اپنے کالم پر اٹھائے گئے اُن ناقابل فہم اعتراضات پر ہوئی جن میں مجھے کہا گیا کہ ’’ میںنے معاملے کو صرف مسلمان بن کر دیکھا ہے جبکہ پنجابی تہذیب اسلام سے کہیں پرانی ہے جس میں مخلوط اکٹھ اور ناچ گانے کی گنجائش ہے۔دوسرا اعتراض یہ کہ میں نے پنجابی وسیب میں شرم و حیا اور غیرت کی بات کر کے اس معاملے کو اسلام اور پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کی ہے جو دراصل مذہب اور اخلاق کی آڑ میں پنجابی تہذیب کی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے‘‘۔ ان عجیب و غریب اعتراضات کا مختصرجواب یہ ہے کہ شرم و حیا اور غیرت کا تعلق ہمارے دین کے ساتھ پنجابی وسیب کا بھی بنیادی حصہ ہے جس میںاسلام کے علاوہ ہندو ،سکھ،عیسائیت اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی کسی مذہبی تفریق کے بغیر شامل ہیں۔لہذا یہ کہنا کہ میں مذہب یا اخلاق کی آڑ میں پنجابی تہذیب کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہاہوں انتہائی لغو اور بے بنیاد الزام ہے جس پر محض افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ مجھے پڑھتے لکھتے اور ادیبوں میں اُٹھتے بیٹھتے تقریباََ پچیس تیس برس کا عرصہ ہوگیا ہے۔ان میں اردو ،پنجابی اور انگریزی زبانوں میں لکھنے والے ہمارے عالمی شہرت یافتہ بڑے بڑے شاعر ادیب اور صحافی بھی شامل ہیں۔ان لکھنے والوں میںاکثر ایسے شاعر ادیب ،صحافی اور دانشور ہیں جن کے اپنے اپنے سیاسی، سماجی،ادبی اور مذہبی نظریات ہیں جن کا اظہار وہ ہمیشہ دلیل کے ساتھ تہذیب اور شائستگی کی حد کے اندر رہتے ہوئے کرتے ہیں۔یہ وہ پڑھے لکھے اور اعلیٰ ظرف لوگ ہیں جن کے ہاں نظریاتی فاصلوں کے باوجود ایک دوسرے کیلئے بھر پور عزت اور احترام موجود ہے اور سوچ یا نظریے کا فرق انکے درمیان کسی بھی قسم کاسماجی فاصلہ پیدا نہیں کرسکا۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جب سے میں نے ادیبوں میں اُٹھنا بیٹھنا شروع کیا ہے تب سے میں نے کبھی اپنے ہاں ادیب برادری میں ایک دوسرے کیلئے اس قسم کا تہذیب سے گرا ہواکوئی رویہ یا افسوسناک واقعہ دیکھا ہو۔ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نظریہ پاکستان اور ہماری اخلاقی اقدارسے متصادم ایسے متشدد اور انتہا پسند رویوں کے حامل یہ کون لوگ ہیں اور ان کا ایجنڈا کیا ہے اور اپنی خود ساختہ پنجابی ثقافت کے نام پریہ پاکستانی معاشرے میں کس قسم کی آزاد خیالی اور بے راہروی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آنیوالاہمارا پیاراملک پاکستان ایک ایسا دیس ہے جس میں مختلف رنگوں نسلوں،زبانوں اورمذہبوںکے لوگ آباد ہیں جن سب کی صدیوں پرانی اپنی اپنی تہذیب اور شاندار روایات ہیں مگر اسکے باوجود ان سب میں ایک بات مشترک ہے کہ ان سب کی بنیاد ایک دوسرے کیلئے پیار محبت، امن، برداشت، ہمدردی،شرم وحیا اور غیرت جیسی انمول اقدار پرقائم ہے۔ اپنے کالم پر اٹھائے گئے اعتراضات کو لے کر رہنمائی کی غرض سے میری اردو اورپنجابی کے چندسنئیر ادیبوں سے بھی بات ہوئی ہے ان سب نے متفقہ طور پر نہ صرف میرے موقف کی حمایت کی ہے بلکہ اس حوالے سے مجھے جس ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اسکی بھرپور مذمت بھی کی ہے۔اس کالم کے توسط سے اپنے کالم پر معترض دوستوں سے میرا سوال ہے کہ کیا پاکستان ہمارے بزرگوں نے بے شمار جانوں اور عزتوں کی قربانی دے کر محض ’’شغل میلوں‘‘ کیلئے حاصل کیا تھا ۔کیا ہمارا ملک جو دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک طویل جد وجہد کے بعداسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے اس میں مذہب، اخلاق اور پاکستانیت کا پرچار کسی بھی طرح پنجابی تہذیب و ثقافت کی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہو سکتاہے۔اس حوالے سے میری پاکستان میں آباد دیگر مذاہب کے قابل احترام نمائندوں سمیت مختلف طبقہ فکر کے سنجیدہ حضرات سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی اس موضوع پر میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا پاکستان میں رہتے ہوئے ہم اپنی روایات اور اقدار کے برعکس اپنی تہذیب ثقافت اوراخلاقیات کو ایک دوسرے سے الگ کر سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن