وہ صبح کبھی توآئے گی 

سینٹ الیکشن گزر گیا‘ ملکی سیاست پر گہرے اثرات چھوڑ گیا۔ کئی تلخ حقیقتیں اور کہیں خوشگوار یادیں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ کسی نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگایا تو کسی نے ’’نوٹ کو عزت دو‘‘ کی پھبتی کسی۔ بہرحال یوسف رضا گیلانی کی کامیابی اور حفیظ شیخ کی شکست سے سیاست میں معمولی سی ہلچل ضرور محسوس کی گئی‘ پی ڈی ایم نے اس کو حکومت کے رخت سفر باندھنے کا عندیہ قرار دیا۔ غیرجانبدار حلقوں نے اسے محض تالاب میں کنکر پھینکنے سے لہروں میں ارتعاش سے ہی تشبیہ دی۔ تاہم حکومت نے عبدالحفیظ شیخ کی ناکامی کو نہ صرف دل پر لگا لیا بلکہ اس کا بدلہ چکانے کی بھی ٹھان لی۔ وزیراعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کر دیا جس پر طرح طرح کے تبصرے ہونے لگے۔ کسی نے کہا کہ ایسی نازک صورتحال میں اعتماد کے ووٹ کا اعلان کرنا ’’اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا ہے۔‘‘ کوئی کہنے لگا ’’بوریا بستر گول‘‘ ہونے کی ’’سہانی گھڑی‘‘ آگئی ہے۔ کوئی دور کی کوڑی لایا کہ ’’لانے والوں اور چاہنے والوں کا جی بھر گیا ہے۔‘‘ کسی نے کہا کہ ’’توقعات‘‘ پر پورا نہ اترنے کے باعث اب ’’سرخ جھنڈی‘‘ دکھا دی گئی۔ گویا  ’’جتنے منہ اتنی باتیں‘‘۔ 
دوسری طرف سے آواز آئی ’’عمران خان تو کشتیاں جلا کے آئے ہیں۔ انہیں کیا فرق پڑتا ہے، حکومت میں رہیں یا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں۔‘‘ بہرحال اس دوران تجسس بھی بڑھنے لگا جبکہ معمولی سیاسی فہم و شعور رکھنے والوں نے نہ تو یوسف رضا گیلانی کی جیت کو چنداں اہمیت دی اور نہ ہی عبدالحفیظ شیخ کی ہار سے جمہوری نظام کو کوئی خطرہ محسوس کیا۔ اسی طرح عمران خان کے اعتماد کا ووٹ لینے کے اعلان نے بھی کسی کو بے چین و بے دل نہ کیا بلکہ اسے معمول کی کارروائی ہی سمجھا کیونکہ ہر صاحب شعور جانتا ہے کہ عبدالحفیظ شیخ کی ہار اور عمران خان کے اعتماد کے ووٹ میں سرے سے ہی کوئی مماثلت تھی نہ وزیراعظم کو کوئی خطرہ تھا کیونکہ وزیراعظم تو ببانگ دہل کہہ چکے تھے کہ’’ ہمارے 16 ارکان قومی اسمبلی بکے‘‘ پھر الیکشن کمشن کو بھی خوب ’’لتاڑا‘‘ گیا۔ 
خیر اظہار اعتماد کیلئے میلہ سج گیا ، تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی عمران خان پر اظہار اعتماد کے لیے ایوان میں جا پہنچے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی تیسرے درجے کی قیادت نے ڈی چوک میں ’’قوت‘‘ کا مظاہرہ کیا۔ تحریک انصاف کے کارکن بھی وہاں پہنچ گئے۔ ہاتھا پائی‘ دھکم پیل اور جوتا پھینکنے سمیت کئی ناخوشگوار واقعات ہوئے۔ تاہم اس ساری لڑائی میں پیپلزپارٹی لاتعلق ہی رہی۔ ایوان میں کئی ارکان ایسے تھے جو شاید کسی لحاظ سے احساس کمتری کا شکار تھے۔ اس لئے وہ ’’چبا چبا‘‘ کر انگریزی بولتے رہے۔ اس طرح وہ دیگر کئی اردو‘ پنجابی‘ سندھی‘ بلوچی اور پشتو بولنے والے ارکان پر اپنا جعلی عکس ڈال کر تفوق ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے جبکہ اس دوران وزیراعظم بڑے پرسکون اور حسب عادت قدرے سنجیدہ بیٹھے اور تسبیح پڑھتے رہے۔ 
-178 ارکان قومی اسمبلی کے ’’بھرپور، شاندار اور تاریخ ساز‘‘ اظہار اعتماد کے بعد سپیکر نے قائد ایوان کی جیت کا اعلان کیا تو ایوان نعروں ، تالیوں اور ڈیسک بجانے سے گونج اٹھا، مرد و خواتین ارکان اسمبلی ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر زور زور سے ڈیسک پیٹتے رہے ، پھر اظہار خیال کا وقت آیا تو وزیروں اور دیگر ارکان اسمبلی نے مدح و ستائش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے ، تاہم موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ایم کیوایم کے ایم این اے نے دل کی بھڑاس نکالی اور اشاروں ، کنایوں میں کئی ’’حل طلب مسائل‘‘ کی طرف وزیراعظم کی توجہ مبذول کرائی۔ پھر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں ، وزیراعظم اظہار خیال کے لیے اٹھے وطن عزیز کے سیاسی ، جمہوری ، معاشی اور معاشرتی نظاموں کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے ، کرپٹ عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے ، پسے ہوئے اور سسکتے طبقے کو جینے کا حق دلانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اگرچہ عوام کو اب ’’ایسی ویسی‘‘ حکومتی ’’ترجیحات‘‘ اور ’’منصوبہ بندیوں‘‘ سے کوئی دلچسپی نہیں رہی کیونکہ ’’خیالی پلائو‘‘ کی یہ دیگ 73 سال سے چڑھی ہوئی ہے۔ ویسے بھی عوام حکمرانوں (حکومت اوراپوزیشن دونوں) کی ’’مجبوریوں‘‘ کو سمجھتے ہیںجبھی تو ہر چھوٹے، بڑے (بلدیاتی اور عام) الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے ’’روایتی کردار‘‘ کے علاوہ ’’عوام کا لأنعام ‘‘ کی ضرورت و اہمیت کو کبھی محسوس نہیںکیا گیا۔
مانا کہ ابھی میرے تیرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں 
مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگرانسانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں 
تاہم اگر ’’قافلۂ سالار‘‘ مطمئن ہیں تو مزید 2 سال امیدیں باندھ رکھنے میںکوئی حرج نہیں کیونکہ 
بیتیں گے کبھی تو دن آخر، یہ بھوک کے یہ بیماری کے 
ٹوٹیںگے کبھی توبت آخر، دولت کی اجارہ داری کے 
جب ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائی جائے گی 
وہ صبح کبھی تو آئے گی
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن