وطن عزیز میں جوں ہی سینیٹ الیکشن کا موسم قریب آتا ہے ،جوڑتوڑ کا سلسلہ عروج پہ پہنچ جاتا ہے ۔ ہر طرف بولیاں لگنے لگتی ہیں ، خریدار سرگرم دکھائی دیتے ہیں، بکنے والوں کی بھی کمی نہیں ہوتی ۔ وطن عزیز میں جمہویت کا راگ الاپنے والے اور آئین کی بالادستی کا بھاشن دینے والے ہر تیسرے سال ووٹ کی بولیاں لگاتے ہیں۔گلی محلے کے انتخابات سے لے کر ایوان بالا کے نمائندگان تک بہت سے بیچنے والے اور خریدنے والے سرِ عام مل جاتے ہیں ۔ سعود عثمانی کا ایک شعر ہے:
ہر شخص وہاں بکنے کو تیار لگے تھا
وہ شہر سے بڑھ کر کوئی بازار لگے تھا
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہمارے عوام و خواص کو جمہوریت کی اصل روح سے کوئی غرض نہیں۔ یہاں ضمیر وں کی خرید و فروخت ہوتی ہے ۔ایمان بیچے جاتے ہیں ۔ پیسہ لے کر وفاداریاںبدل دی جاتی ہیں۔ انتخابات کے موسم میں ووٹ کی قیمت لگائی جاتی ہے۔ یہ قیمت بریانی کی ایک پلیٹ سے لیکر کروڑوں روپے تک ہو سکتی ہے۔ ایک حقیقی جمہوریت میں لوگ ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہیں لیکن ہمارا جمہوری کلچر ابھی ناپختہ ہے۔یہاں وڈیرہ شاہی اور جاگیر دارانہ کلچر ہے۔ موروثی سیاست کا چلن عام ہے۔قومی قیادت کا فریضہ سرانجام دینے والی سیاسی جماعتوں میں خاندانی آمریت ہے۔انہی خاندانی آمریتوںکی کوکھ سے جنم لینے والی پارلیمنٹ آئین اور قانون کی بالادستی کے بجائے ان مخصوص خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنان برس ہا برس تگ و دو کرنے کے باوجود ان سیاسی خاندانوں کی غلامی سے باہر نہیں نکل پاتے ۔ ہمارے ہاں کی سیاست نظریات کے بجائے شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔ مخصوص شخصیات کے مفادات کا تحفظ ہی سیاست کا منتہائے عروج ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ابھی تک یہاں نہ خالص مغربی جمہوریت پروان چڑھ سکی ہے اور نہ ہی اسلامی نظام مشاورت کی برکات حاصل ہوسکی ہیں ۔
مغربی جمہوریت میں ’’بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے‘‘ لیکن جن کو ’’گنا‘‘ جاتا ہے وہ انتہائی گھاگ اور زیرک ہوتے ہیں ۔ ووٹ کی طاقت اور اہمیت کو سمجھتے ہیں ۔ مغرب میں شرح خواندگی سو فی صد ہے ۔ وہاں تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے ۔ میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے ۔ کوئی ایک پارٹی کسی ناجائز طریقے سے رائے عامہ پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔ پروپیگنڈہ مغرب میں بھی ہوتا ہے لیکن معاشرے کوبحیثیت مجموعی بیوقوف نہیں بنایاجاسکتا۔ کم از کم ہمیشہ کیلئے نہیں ۔ لوگ باشعور اور پختہ سیاسی رائے کے حامل ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ گزشتہ ستر سالوں سے مخصوص طبقات زمام اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔ لوگوں کو حقیقی جمہوریت کی ہوا تک نہیں لگنے دی گئی ۔ جس ملک کی نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو اورجہاں آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو وہاں سینیٹ الیکشن میں اربوں روپے کی ہارس ٹریڈنگ قیامت سے کم نہیں !
حالیہ سینیٹ انتخابات میں بھی خوب پیسہ چلا۔ کاروبارِ سیاست عروج پہ رہا۔وفاداریاں اور ضمیر خریدے گئے ۔ آئین، قانون، جمہوریت اور جمہوری اقدار کی بات کرنیوالے ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے لیکن نہ اس سے جمہوریت کو کوئی نقصان پہنچا اور نہ ہی ووٹ کی تقدیس پہ کوئی حرف آیا اس لیے کہ یہاں سب چلتا ہے ۔سب بِکتا ہے۔ایمان بِکتے ہیں ۔ غریب غرباء تو بکتے ہی ہیں، عزت مآب بھی اپنی بولیاں لگاتے ہیں ۔ خریدوفروخت کے اس کلچر میں صوفی کی قبا، ملا کی عبا، واعظ کا وعظ، ثناء خوانوں کی خوش الحانی، رندوں کی مستی، مفتیوں کے فتاویٰ، سیاست دانوں کی موقع پرستی ۔ ہر چیز بکتی ہے۔ اے زر تو خدا نیست ولیکن بخدا ستار و قاضی الحاجاتی! کروڑوں کی سرمایہ کاری کے ذریعے ایوان بالا کی رکنیت حاصل کرنیوالے بھلا عام آدمی کا کیا سوچیں گے؟ انھیں غریب عوام کی الجھنیں سلجھانے سے کیا غرض ہوسکتی ہے؟وہ قوانین حیات کو جان کر کیا کرینگے؟ انھیں تو بس اپنے سرمائے سے کئی گنا زیادہ کمانے کی فکر ہوگی۔اس کھلی چور بازاری کا راستہ روکا جانا انتہائی ضروری ہے۔ اس کا براہِ راست تعلق ہمارے قومی مفاد کے معاملات سے ہے۔سینیٹ آف پاکستان کی رکنیت حاصل کرنے کا موجودہ طریقہ بہت سی کوتاہیوں سے عبارت ہے۔خفیہ رائے شماری کے اصول کے تحت صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے کچھ اراکین کروڑوں روپے کے عوض اپنا ووٹ فروخت کرتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو بدعنوانی کا یہ مکروہ ترین حربہ ہے جسکے اثرات ہمارے مجموعی سیاسی کلچر پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس طریقۂ کار میں موجود خامیوں کودور کیاجانا چاہیے اور تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی نظام کی بہتری اور مضبوطی کیلئے تمام چور دروازے بند کرنے چاہئیں۔ اس کا واحد حل خفیہ رائے شماری کے بجائے کھلے عام رائے کا اظہار ہے۔ اگر حکومتی صفوں میں موجود کچھ اراکین اسمبلی کو حکومت کے طرزِ حکمرانی یا دیگر پالیسیوں سے اختلاف ہے تو ان میں اتنی اخلاقی جرأت ہونی چاہیے کہ کھلے عام اس کا اظہار کریں اور جمہور کی نمائندگی کرتے ہوئے مثبت تنقید کے ذریعے حکومت کا قبلہ درست کریں۔ اگر یہ چور دروازہ بند نہ ہواتو اندھیر نگری میں یہی چوپٹ راج جاری رہے گا اور اس نظام کے تعفن سے عام پاکستانی براہِ راست متأثر ہوتا رہے گا!
٭…٭…٭