عدم ِ اعتماد کی تحریک پر سیاسی فہم و تدبر کے مظاہرے کی ضرورت

وزیراعظم عمران خان نے واشگاف انداز میں اعلان کیا ہے کہ انہیں اپوزیشن کی جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کی کوئی فکر نہیں‘ اپوزیشن ماضی کی طرح اس بار بھی ناکام ہوگی اور حکومت مزید مضبوط ہوگی۔ گزشتہ روز وزیراعظم نے سینئر پارٹی رہنمائوں اور ارکانِ اسمبلی کے علاوہ یوٹیوبرز سے بھی ملاقات کی اور ان سے موجودہ عالمی اور ملکی سیاسی حالات بالخصوص تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں گفتگو کی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد مکمل پراعتماد دکھائی دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ارکان حکومت کیخلاف اس لئے ’’گینگ اپ‘‘ ہورہے ہیں کیونکہ آصف علی زرداری اور میاں شہبازشریف سمیت اپوزیشن رہنمائوں کیخلاف مقدمات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور آئندہ چند ماہ میں ان مقدمات کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ اپوزیشن اسی تناظر میں جتھے بنا کر حکومت پر حملہ آور ہورہی ہے۔ انکے بقول پاکستان میں اس وقت جس طرح بے شرمی کے ساتھ ارکان کی خریدوفروخت ہورہی ہے‘ اسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ 
ذرائع کے مطابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فوج انکے ساتھ کھڑی ہے کیونکہ جو بھی پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے‘ فوج اسکی حمایت کرتی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہیں جو یہاں کٹھ پتلی حکمران چاہتے ہیں۔ امریکہ کو علم ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں کی دنیا میں کہاں کہاں جائیدادیں پڑی ہوئی ہیں چنانچہ ان سیاست دانوں کو خطرہ ہے کہ امریکہ کی بات نہ مانی تو انکی جائیدادیں ضبط کرلی جائیں گی اس لئے یہ یورپی یونین کے بارے میں میرے بیان پر تنقید کر رہے ہیں۔ انکے بقول اس وقت مائنڈ گیم کھیلی جارہی ہے‘ اعصاب کی جنگ جاری ہے‘ عدم اعتماد کی تحریک جب ناکام ہو گی تو پھر قانونی کارروائی کی جائیگی۔ میں نے بہت کچھ پلان کر رکھا ہے‘ تین ہفتے بہت اہم ہیں۔ حکومت اس تحریک عدم اعتماد کے بعد مزید مضبوط ہو گی۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی پارٹی کی حکومت کی تشکیل اور پھر اس حکومت کو قائم و برقرار رکھنے کا انحصار اس پارٹی کو منتخب ایوان میں حاصل عددی اکثریت پر ہوتا ہے جبکہ ہائوس کے اندر سے عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کی تبدیلی بھی آئین کے تقاضوں کے مطابق ہی ہوتی ہے۔ یہی جمہوریت کی روح ہے کہ اس میں عددی اکثریت کی حامل پارٹی اور اسکے اتحادیوں کو مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کا موقع مل جاتا ہے اور دوسری پارٹیاں اپوزیشن بنچوں پر آجاتی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن درحقیقت جمہوریت کی گاڑی کے دو پہئیے ہیں جو باہمی تال میل کے ساتھ اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں گی تو جمہوریت کی گاڑی بھی اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے گی۔ یہ منزل بلاشبہ جمہوریت کے استحکام کی منزل ہے‘ اس تناظر میں جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنا اور اسے مستحکم بنانا حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے۔ 
جمہوریت کی عملداری کے معاملہ میں ہمارا ماضی تابناک ہرگز نہیں رہا اور حکومتی و اپوزیشن بنچوں پر ایک دوسرے کیخلاف صف آراء اور ذاتیات پر اترے ہوئے سیاست دانوں کی باہمی کھینچا تانی اور ملک میں انتہاء درجے کو پہنچائی گئی سیاسی محاذ آرائی کے نتیجہ میں ہی ماورائے آئین اقدامات کے ذریعے جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتارنے کے مواقع پیدا ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح ملک سالہا سال سرزمینِ بے آئین بنا رہا جہاں پی سی او اور صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے امور حکومت و مملکت سرانجام دیئے جاتے رہے جو درحقیقت شخصی آمریت کی شکل میں فرد واحد کی حکمرانی ہوا کرتی تھی جبکہ ایسے اقدامات کے بعد ہماری عدلیہ کی جانب سے نظریۂ ضرورت کے تحت شخصی آمریتوں کا جواز نکال کر انہیں تحفظ بھی فراہم کیا جاتا رہا۔ اس کیلئے ماورائے آئین اقدامات کی سوچ رکھنے والوں کو مفادات کے اسیر سیاست دانوں کی جانب سے ہی کندھا فراہم کیا جاتا رہا چنانچہ ملک میں جمہوریت کا پودا باربار مسلے جانے کے باعث کبھی تناور درخت نہیں بن پایا تاہم گزشتہ دو دہائیوں سے سیاست دانوں کی گاہے بگاہے نظر آنیوالی باہمی چپقلش کے باوجود جمہوریت کی گاڑی ٹریک پر رواں دواں ہے اور اپنے استحکام کی منزل کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس تناظر میں ہمارے قومی سیاسی قائدین کو فہم و تدبر کے ساتھ جمہوریت کو ماضی کی طرح ڈی ٹریک ہونے سے بچانا اور پروان چڑھنے والے جمہوریت کے پودے کو تناور درخت بنانا ہے تاکہ اسکے میٹھے پھل سے عوام الناس بھی مستفید ہو سکیں۔ 
بدقسمتی سے ذاتی دشمنیوں کے قالب میں ڈھلتے سیاست دانوں کے اختلافات گزشتہ کچھ عرصے سے جمہوریت کیلئے پھر سدراہ بنتے نظر آرہے ہیں۔ موجودہ حکمران پی ٹی آئی اور اسکے قائد عمران خان بے شک کرپشن فری سوسائٹی کے تصور کے ساتھ سسٹم کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں جس کیلئے نیب بھی ہمیشہ پرعزم رہا ہے تاہم اس معاملہ میں حکمران جماعت کی جانب سے اختیار کئے گئے طرزعمل سے قومی سیاست میں محاذآرائی اور کشیدگی کا عنصر حاوی ہونے لگا جس سے احتساب کے شکنجے میں آئے اپوزیشن کے سیاست دانوں کو اپنے خلاف جاری احتساب کے عمل کو انتقامی کارروائیوں کے کھاتے میں ڈالنے کا موقع ملا۔ اگر حکومتی گورننس عام آدمی کے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل حل کرنے میں معاون بن رہی ہوتی جس کیلئے عوام نے عمران خان کے ساتھ توقعات بھی وابستہ کی تھیں تو انتقامی کارروائیوں سے متعلق اپوزیشن کے پراپیگنڈے کو بھی عوام میں پذیرائی حاصل نہ ہوتی مگر عوام بالخصوص مہنگائی کے ہاتھوں پہلے سے بھی زیادہ بدحال ہونے لگے جنہیں اپوزیشن کو حکومت مخالف تحریک کیلئے استعمال کرنے کا نادر موقع مل گیا۔ 
اس وقت جبکہ پی ٹی آئی حکومت کے چار سال مکمل ہونے کے قریب ہیں‘ عوام کو اپنے گوناںگوں روزمرہ کے مسائل سے خلاصی پانے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی اور وہ وزیراعظم کے اعلان کردہ بڑے ریلیف پیکیج سے بھی مطمئن نہیں ہوئے تو اپوزیشن کو ہائوس کے اندر سے حکومت کی تبدیلی کیلئے ایک پلیٹ فارم پر دوبارہ متحد ہونے کا موقع ملا ہے۔ اس طرح حکومت کی تبدیلی کی لہر میں بادی النظر میں کوئی خانہ ساز یا بیرونی سازش کارفرما نظر نہیں آتی بلکہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا موقع خود حکومت نے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر فراہم کیا ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے جہاں عدم اعتماد کی تحریک کے پس منظر میں اپوزیشن پر بیرون ملک سے معاونت حاصل ہونے کا الزام عائد کیا وہیں انہوں نے اپنی حکومت کیلئے فوج کی مکمل حمایت حاصل ہونے کا عندیہ بھی دیا جو موجودہ صورتحال میں ملک اور عساکر پاکستان کے بدخواہوں کو فوج کی جانب انگلیاں اٹھانے کا موقع دینے کے مترادف ہے جبکہ عسکری قیادتیں دوٹوک الفاظ میں عساکر پاکستان کی سیاسی امور سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہیں۔ موجودہ سیاسی فضا اور ملک کی سلامتی کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجوں کے تناظر میں حکومت یا اپوزیشن میں سے کسی کو بھی  اپنے سیاسی ایجنڈے میں عساکر پاکستان کی معاونت حاصل ہونے کا تاثر نہیں دینا چاہیے۔ اور آئین کے تقاضے کے تحت ہی عدم اعتماد کی تحریک سے عہدہ برأ ہونا چاہیے۔ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد چونکہ وزیراعظم اسمبلی توڑنے یا کسی پالیسی معاملے پر کوئی دوسرا قدم اٹھانے کا آئینی اختیار کھو چکے ہیں اس لئے عدم اعتماد کی تحریک سے نمٹنے کیلئے کوئی ترپ کا پتہ چلانے کی وہ پوزیشن میں نہیں ہیں جس کے شیخ رشید احمد آج بھی داعی ہیں چنانچہ اب حکومت کو سارا زور ہائوس میں اپنی عددی اکثریت برقرار رکھنے اور اپوزیشن کو عددی اکثریت حاصل کرنے  پر لگانا ہے اور یہ صورتحال حکومت اور اپوزیشن دونوں سے ملکی و قومی سلامتی کے تقاضوں والی دوراندیشی اور فہم و ادراک کی متقاضی ہے۔ اگر انکے مابین جاری چپقلش اور محاذآرائی سے سیاسی فضا مزید مکدر ہوتی ہے تو پھر انکی باہمی کھنیچا تانی ماضی جیسے کسی ماورائے آئین اقدام کے ذریعے جمہوریت کا مردہ خراب کرنے پر منتج ہو سکتی ہے۔ جمہوریت کو اس ممکنہ صورتحال سے بچانا حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے۔ بے شک حکومت اور اپوزیشن  عدم اعتماد کی تحریک پر اپنے اپنے نتائج کے حصول کیلئے پورا زور لگائیں مگر ان کا کوئی فیصلہ یا اقدام جمہوریت کو ٹریک سے اتارنے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ 

ای پیپر دی نیشن