ارادہ تو اس بار روس یوکرائن جنگ اور روس کی اب تک جاری جنگی پالیسیوں کے تناظر میں ممکنہ نتائج‘ نیٹو ممالک کا کردار‘ روس کے ویٹو اختیارات کی اہمیت اور ایٹمی قوت ہونے کے ناطے اسکے خطے کی علاقائی صورتحال پر مرتب ہونیوالے گہرے اثرات پر لکھنے کا تھا مگر ماہ مارچ کے احساس نے موضوع تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ 2022ء کا یہ مارچ واقعی اہمیت کا حامل ہے۔
اس ماہ کی سب سے بڑی اہمیت یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آزادی کے حوالے سے یہ مہینہ تجدید عہد کی یاد تازہ کرتا ہے جبکہ تاریخی حوالے سے اب یہی وہ اہم مہینہ ہے جب 2016ء میں بھارتی بحریہ کا حاضر سروس کمانڈر جاسوس اور دہشت گردی میں ملوث کلبھوشن یادیو جس نے حسین مبارک کا جعلی پاسپورٹ بنوا رکھا تھا‘ ایرانی پاسپورٹ پر پاکستان جاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور یوں اس نے اقرار کیا کہ اب تک وہ ’’را‘‘ کا اہم رکن ہونے کے ناطے پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہو کر درجنوں بے گناہ افراد کو اپنا نشانہ بنا چکا ہے۔ پاکستان کی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل عدالت کی جانب سے کلبھوشن کو موت کی سزا سنائی گئی جس پر 2019ء میں بھارت نے عالمی عدالت انصاف ہیگ میں قونصلر کی رسائی کا مقدمہ دائر کیا۔ عالمی عدالت نے قونصلر کی رسائی کی اجازت تو دے دی مگر سزائے موت مسترد کرنے کی بھارتی درخواست مسترد کردی۔ اس کیس کا آنکھوں دیکھا حال اور اسکی کوریج کا چونکہ مجھے بھی اعزاز حاصل ہے اس لئے عدالتی فیصلے کے بعد بھارتی میڈیا کو جس ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا اس کا ثبوت عالمی میڈیا کے کوریج کیلئے آئے نمائندوں کی رپورٹس سے آج بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس ماہ میں اور کیا کچھ ہونے جا رہا ہے‘بڑی ہی دلچسپ صورتحال ہے۔ پہلے اپنی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی زبوں حالی پر جس کیلئے گزشتہ بیس برس سے رونا رو رہا ہوں‘ جی ہاں! 2000ء میں قومی ایئرلائن کو 52 ملین ڈالر خسارے سے دوچار ہونا پڑا تو میں نے دہائی دی۔ انہی دنوں میں نے تین ایسے ہوا بازوں کا ذکر کیا جن کے پاس مبینہ طور پر ہوابازی کی ڈگریاں ہی نہ تھیں۔ مگر پی آئی اے کے بڑے صاحبوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اسی طرح 2012ء میں قائمہ کمیٹی کے سامنے پی آئی اے کی خسارے پر مبنی رپورٹ کا میں نے ذکر کیا تو خسارہ تو دور کی بات طیارہ مبینہ طور پر 70 لاکھ میں فروخت ہونے کا انکشاف ہو گیا۔ دوبارہ 2014ء میں ہم باکمال لوگوں کی اس لاجواب سروس کو پھر دو سو ارب روپے کا خسارہ ہوا تو میری رگ حمیت پھر پھڑکی۔ 2016ء میں اس وقت کے جرمن نژاد سی ای او برنلڈ ہلڈن نے لندن میں ایک ملاقات کے دوران میرے اس قومی رونے دھونے پر مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے مجھ سمیت بیرون ملک مقیم 92 ہزار پاکستانیوں سے جو سالانہ 30 ارب ڈالرز زرمبادلہ بھجوا کر گزشتہ کئی برس سے اپنے وطن کے مالی استحکام میں اپنا تاریخی کردار ادا کررہے ہیں، وعدہ کیا کہ قومی ایئرلائن کو ہنگامی بنیادوں پر منافع بخش بنانے کیلئے جلد اقدامات کئے جارہے ہیں‘ ان اقدامات میں پریمیئر کلاس کا اجراء اور قطر سے 20 تربیت یافتہ ایئرہوسٹسز جنہیں دوران پرواز مسافروں سے مسکراہٹ بھرے لہجے میں میزبانی کی خصوصی تربیت دینے کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ مسافروں کے سفر کو مزید خوشگوار بنایا جاسکے۔ اسلام آباد سے لندن کیلئے پریمیئر کا اجراء تو ہوا اس وقت کے وزیراعظم محمد نوازشریف نے طیارے کو اسلام آباد سے لندن کیلئے اپنی مسکراہٹوں سے رخصت بھی کیا مگر! پھر وہی کہ: ’’چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
اطلاعات ملیں کہ دو ارب روپے کے مبینہ خسارے کے بعد اس کلاس کو فوری طور پر بند کر دیا گیا۔ اسی طرح اس وقت کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے محکمہ ہوابازی کے چیئرمین نے جو رپورٹ پیش کی‘ اس میں انکشاف پر ( کہ چیف ایگزیکٹو نے 22 دورے کئے اور 99 دن ملک سے باہر رہے جس پر مجموعی طور پر 8 عشاریہ 2 ملین روپے اور دو ڈائریکٹروں کے 13, 13 دوروں پر تقریباً تین ملین روپے خرچ ہوئے)۔ رہی سہی توقعات پر بھی پانی پھر گیا۔ البتہ 2017ء مالی سال کے دوران پی آئی اے کو 670 ملین امریکی ڈالر کا منافع ضرور ہوا مگر نیویارک روٹ پر خسارہ برقرار رہا۔ 2020ء سے بین الاقوامی ایوی ایشن اتھارٹی اور یورپی ایوی ایشن سیفٹی اتھارٹی کی جانب سے لگائی پابندیوں کو آئندہ ماہ اٹھانے کا عندیہ دیا گیاہے۔ قوی امکان ہے کہ پابندیاں ختم ہوتے ہی پی آئی اے اپنی شیڈول پروازیں اگلے ماہ سے شروع کر دیگی۔
مستقبل میں جعلی لائسنسوں اور جعلی سرٹیفکیٹس کے مکمل خاتمہ اور قومی ایئرلائن کو بدنامی سے محفوظ رکھنے کیلئے ہمارے پائلٹوں کے امتحان اب برطانوی ایوی ایشن نظام کے تحت لئے جائیں گے۔ میرے ذرائع کے مطابق 2023ء تک 12 نئے طیاروں کو بھی پی آئی اے فلیٹ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اللہ کرے قوم کی یہ تمام خواہشات آئندہ چند ہفتوں میں پوری ہو جائیں۔ مگر ہم باکمال لوگوں کی اس لاجواب سروس کے بارے میں پایا جانیوالا یہ خدشہ کہ قومی ایئرلائن کے پاس De./cing کا سرے سے کوئی انتظام ہی موجود نہیں۔ مزید تفصیلات کا متقاضی ہے۔ اپنی قومی اور ملکی سیاست میں بھی اس ماہ بہت کچھ سننے اور دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اپنی قومی سیاست پر تجزیہ کرنے کے ہنر سے میں چونکہ محروم ہوں‘ تاہم اپنے بعض چاہنے والوں کے ہر دوسرے روز بھجوائے ان سیاسی تجزیوں سے ضرور استفادہ کرتا ہوں جنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد ’’سیاسی تجزیہ نگاری‘‘ کا یہ ’’چسکہ‘‘ لگ چکا ہے۔
پاکستان اور برطانیہ کے 75 سالہ سفارتی اور کثیرالجہتی تعلقات اور آزادی کی 75ویں سالگرہ کے حوالے سے اس ماہ لندن میں افتتاحی تقاریب کے پہلے سیشن کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ پاکستان ہائی کمیشن اور برٹش کونسل کے تعاون سے Prospective Programe برائے 2022ء کے سلسلہ میں برٹش کونسل کی چیئرمین Stevie Spring نے بطور مہمان خصوصی ہائی کمیشن میں پروگرامز کی تفصیلات سے اگلے روز آگاہ کیا۔ ہائی کمشنر معظم احمد خان نے پاک برطانیہ کثیرالجہتی اور دیرینہ تعلقات میں استحکام کیلئے برطانوی پاکستانیوں کے کردار کو سراہا۔ میں اس سوچ میں گم ہوں مارچ میں سیاسی مارچ کیا واقعی ہماری قومی ضرورت ہے ؟ قوم تو اپنی آزادی کی 75ویں سالگرہ منانے جارہی ہے۔
٭…٭…٭
مارچ میں ’سیاسی مارچ‘ اور ہماری لاجواب سروس
Mar 10, 2022