روس یوکرائن جنگ اور مغربی ذرائع ابلاغ

Mar 10, 2022

روس کے یوکرائن پر حملے کو تقریباً دو ہفتے ہوچلے ہیں۔ اس دوران ایک بڑے اور طاقتور ملک کی طرف سے ایک چھوٹے اور کمزور ملک کے مختلف شہروں پر آتش و آہن کی جو بارش کی گئی اس کی خبریں ذرائع ابلاغ کے وسیلے سے ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ جنگ ایک بھیانک اور روح فرسا صورتحال کو جنم دیتی ہے اور اس کے الم ناک نتائج انسانوں کے ساتھ ساتھ زمین پر موجود دیگر مخلوقات کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنگ مسائل پیدا تو کرسکتی ہے لیکن مسائل کا حل فراہم نہیں کرسکتی۔ مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ مذاکرات کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑتا ہے۔ روس اور یوکرائن بھی آج نہیں تو کل اسی طرف آئیں گے لیکن یہ کب ہوگا، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ امریکا اور یورپ اس معاملے میں اپنے منفی کردار سے کب باز آتے ہیں اور اہم بین الاقوامی اداروں کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر جنگ کی آگ کو بجھانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔
یوکرائن پر کیے گئے روس کے حملے کے پس منظر اور وجوہ سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس معاملے کو موجودہ صورتحال تک لانے میں بھی امریکا اور یورپ نے منفی کردار ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ روس کے بار بار مطالبات کے باوجود امریکا نے اپنے استعماری پنجے یوکرائن تک پھیلانے کے لیے جو اقدامات کیے ان کا لازمی نتیجہ جنگ کی صورت میں ہی برآمد ہونا تھا۔ امریکی انتظامیہ اور پالیسی سازوں کو شاید یہ سمجھنے میں دقت پیش آرہی ہے کہ دنیا بہت بدل چکی ہے اور اب اٹھارھویں یا انیسویں صدی میں استعمال کیے جانے والے حربوں کو بروئے کار لا کر اپنے قابو میں نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو امریکا کو دوسرے ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کا جتنا شوق ہے، اس کے پاس جتنی طاقت ہے اور جس طرح اسے یورپ کے بڑے اور اہم ممالک کی حمایت حاصل ہے، ماضی کے برطانوی راج کی طرح آج دنیا کے بڑے حصے پر اس کا جھنڈا لہرا رہا ہوتا۔
امریکا اور یورپ اس صورتحال سے پوری طرح غافل بھی نہیں ہیں اور وہ نئی دنیا کے تقاضوں کے سمجھتے ہوئے ہی ذرائع ابلاغ کے وسیلے سے دنیا بھر میں اپنے نظریات کو فروغ دے رہے ہیں۔ پاکستان جیسے کئی اہم ممالک میں وہ مقامی ذرائع ابلاغ کو ایک خاص طریقے سے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں مقامی ذرائع ابلاغ کے علاوہ وائس آف امیریکا (وی او اے)، برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) اور ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) جیسے اداروں کے مقامی زبانوں میں کام کرنے والے چینلوں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے وسیلے سے یہ ممالک صرف اپنے نظریات ہی دوسروں تک نہیں پہنچاتے بلکہ نفرت اور تعصب بھی پھیلاتے ہیں۔ اسی کا تازہ اظہار مغربی ذرائع ابلاغ کی مدد سے روس یوکرائن جنگ کے دوران دیکھنے کو مل رہا ہے۔ 
یورپ کے بہت سے نشریاتی اداروں نے اس جنگ کے بارے میں رپورٹنگ اور پروگرام پیش کرتے ہوئے جو زبان استعمال کی اس سے واضح طور پر یہ مطلب نکلتا ہے کہ جنگ کی تباہی اور ہولناکی یورپی عوام کے سوا باقی سب لوگوں کا مقدر ہے اور یہ سب کچھ انھیں ہی برداشت کرنا چاہیے، یورپ کے لوگوں تک جنگ کی تپش نہیں پہنچنی چاہیے۔ بی بی سی نیوز پر جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک یورپی تجزیہ کار کا کہنا تھا:
It's really emotional for me because I see European people with blue eyes and blonde hair being killed. Children being killed every day with Putin's missiles.
(میرے لیے یہ بہت جذباتی کردینے والے مناظر ہیں کیونکہ نیلی آنکھوں اور بھورے بالوں والے یورپی لوگ مارے جارہے ہیں۔ پیوٹن کے میزائل ہر روز بچوں کو مار رہے ہیں۔)
ایک خاتون رپورٹر نے اس بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے کہا:
And this is not a developing third world nation. This is Europe. 
(اور یہ ترقی پذیر دنیا سے تعلق رکھنے والا کوئی ملک نہیں۔ یہ یورپ (کا حصہ) ہے۔)
ایک اور خاتون رپورٹر نے اس صورتحال پر بات کرتے ہوئے باقاعدہ حوالہ دے کر کہا کہ جن لوگوں کو مارا جارہا ہے ان کا مرنا اس لیے افسوس ناک ہے کیونکہ وہ لوگ مسیحی اور گورے ہیں۔ اسی طرح مختلف ٹیلیویژن چینلوں پر خبروں اور پروگراموں کے دوران عراق اور افغانستان سمیت جنگی صورتحال کا شکار ہونے والے مختلف مسلم ممالک کے حوالے دے کر کہا گیا کہ وہاں تک تو یہ سب ٹھیک ہے لیکن یورپ کے کسی حصے میں ایسا ہونا بہت تکلیف دہ اور اذیت ناک ہے۔ یہی مغربی ذرائع ابلاغ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں کے جواب میں مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کو تو دہشت گرد بنا کر پیش کرتے ہیں اور اب یوکرائن میں مزاحمت کرنے والے شہریوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔
اس سب سے پتا چلتا ہے کہ یورپ کے لوگ کس حد تک متعصب ہیں اور وہاں کے ذرائع ابلاغ بھی نفرت اور تعصب کے اظہار میں کسی سے ہیٹے نہیں ہیں۔ یہی وہ رویے ہیں جن کی بنا پر ترقی پذیر ممالک میں عوام کی اکثریت کے مغربی ممالک، ان کی حکومتوں اور ان کے شہریوں کے خلاف نفرت کے جذبات مزید بھڑکتے ہیں۔ امریکا اور یورپ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ کی مدد سے نفرت اور تعصب کو فروغ دے کر وہ اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے خود کو دوسروں سے بہتر بنا کر پیش کرسکتے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ روس کے یوکرائن پر حملے کے سراسر زیادتی پر مبنی ہونے کے باوجود اگر دنیا بھر کے ممالک نے یک زبان ہو کر اس کی مذمت نہیں کی تو اس کی سب سے بڑی وجہ امریکا اور یورپ کے وہ رویے ہیں جو دنیا کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ یہ جس طرف بھی کھڑے ہوں گے حق اس کی مخالف سمت میں ہوگا!

مزیدخبریں