انگریزوں سے آزادی کے بعد قائد اعظم نے ہمیں وطن عزیز پاکستان کا تحفہ دیا مگر آزادی کے بعد زندگی نے انکا ساتھ نہ دیا اور اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اس عظیم شخصیت کو اپنے پاس بلالیا اور بد قسمتی سے وطن عزیز طالع آزمائوں ، غیر ملکی آقائوں کے اشاروں پر کام کرنے والے نام نہاد سیاست دانوں کے ہاتھوں میں آگیا ، 1947 ء سے آج تک اس ملک میں 30 سال تو فوجی آمر مسلط رہے اور ہر چند سالوںبعد ملک وطن کی سرحدوںکی حفاظت کے نام پر مسلط ہوتے رہے اس لئے جمہوریت کے نام پر بننے والا یہ ملک آج تک جمہوریت کے صحیح مطلب سے آشنا نہ ہوسکا ۔ سیاست دان بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیںآتے ورنہ وطن کی آج کی صورت حال میں اگر جنرل ضیائ، سکندر مرزا ، ایوب خان ، یا پرویز مشرف ہوتے تو یہاںنہ کوئی دھرنا ہوتا نہ جمہوریت کے نام پر عوام کے مفادات اور قسمتیں فروخت ہورہی ہوتیں۔ وطن عزیز کے سیاست دان ہمیشہ کی طرح آج پھر کرسی کی تگ و دو میں مصروف ہیں ،کل کے کرپٹ آج کے ساہوکاروں سے ملاقاتوںمیں مصروف ہیںاور آج کے ساہوکار اپنی کرسی کے حصول کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں، مجوزہ عدم اعتماد کی تحریک نے در اصل ملک میں عدم استحکام کی فضا پیدا کردی ہے ۔ یہ بھی مذاق ہے کہ یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے اور اس میں جمہور یعنی عوام کا کوئی عمل دخل نہیں، سیاست دانوں کا یہ مراعات یافتہ ،جاگیر دار ، سرمایہ دار طبقہ جو بھی فیصلہ کرے گا عوام جو اس وقت صرف تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں انہیں فی الحال چند تعلیم یافتہ یا سیاست کے پرستاروں کے کے علاوہ کسی سے کوئی دلچسپی نہیں وہ صرف کھیل دیکھ رہے ہیں وہ دیکھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم جو جھکنا نہیں جانتے ، چوہدری شجاعت ، ایم کیوایم کے آستانوںپر جارہے ہیں اور یہ چند سیٹیں رکھنے والے اس صورتحال سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ کوئی بڑی جماعت ، تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن ، یا پی پی پی طاقت نہیں رکھتی کہ وہ تنہا حکومت بنا لے، اس لئے ، اسمبلیوں میٰں چار ، سات یا ایک سیٹ رکھنے والے اقتدار کی جنگ میں موجود جماعتوںکے سامنے اپنی بھر پورقیمت لگا رہے ہیں وہ دراصل وہ جمہوریت کے نام پر عوام کے مسائل، اور عوام کو فروخت کررہے ہیں اور منہ مانگی مراعات یا رقم پر مذاکرات کررہے ہیں ، مراعات دینے میں ہمیشہ حکومت کے پاس یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ وزارتیں ، سفارتیں، تقرریاں کرکے چند نشستں رکھنے والوں کی حمائت حاصل کرلیںمگر یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ کیا اسطرح کی خرید و فروخت سے جو بھی حکومت کریگا کیا وہ پاکستان کے مسائل حل کرسکے گی تحریک انصاف پہلی دفعہ مسند اقتدار پر آئی، انتخابی مہم میں کرپشن کا سابقہ حکومتوںکی کرپشن کا ذکر ہر لمحہ کیا صرف ملک میں نہیں بلکہ بیروں ملک بھی ڈھول پیٹا ، مگر پاکستان میں نہ ہی کرپشن کم ہوئی، نہ ہی بیرون ملک اداروںو حکومتوںسے اس وجہ سے مراعات یا مد د ملی کہ نواز شریف یا ذرداری نے کرپشن کی ہے ۔ چار سال ہونے کو مگر اب یہ چورن بھی نہیںبک رہا نہ ہی آئندہ انتخاب میں پی ٹی آئی کے اراکین سے چار سال پرانا چورن اپنے علاقوں میں فروخت ہوسکے گا ۔ اب بتانا پڑیگی اپنی کارکردگی کہ چار سال عوام کی فلاح بہبود کیلئے کیا کیا ،جس پر بغلیں جھانکنیں کے علاوہ اور کچھ نہ ہوسکے گا۔ موجودہ تحریک انصاف حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کوششیں، تحریک انصاف کے اندر سے ہی دیرینہ اراکین کی جانب سے وزیر اعظم سے شکایاتوں کی وجہ وزیر اعظم کا رویہ ہے جب وہ اپنی جماعت کے لوگوںکو ناراض کرسکتے ہیںوسیم اکرم پلس کیلئے اس پر دھمکیاں کہ میں سب کو جیل میں ڈالونگا ،اسکا مطلب ہے کہ ملک میں قانون نہیں عدالتیں، اوراحتسابی ادارے وزیر اعظم کے اشارے پر چلتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میںجبکہ حکومت کی منفی گورننس کی وجہ سے پاکستان گرے لسٹ میںتاحال موجود ہے ، آئی ایم ایف کے گرداب سے باہر آنے کی کوئی توقع یا پالیسی نہیں،درآمدات پر چلنے والا ملک جو حکومتی گورننس میں بنیادی خامیوں کی وجہ سے بیرونی قرضوں میں جکڑا جاچکا ہے ، کم آمدنی والے قبر کے دھانے پر ہیں ، متوسط طبقہ قبر کے قریب پہنچنے کی تیاری میںہے ، افراط زر کی وجہ سے عوام کا غربت کی لکیر سے نیچے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ، روس یوکرین جنگ اگر طول پکڑتی ہے تو عالمی سطح پر مہنگائی کا ایسا طوفان آئے گاکہ ہماری جیسی معیشتیں برداشت کرنے سے قاصر ہوں گی اس صورتحال میں ہماری خارجہ پالیسی ہمیں دنیا کی موجودہ سیاست اور تعلقات میں صحیح سمت نہیں لے جارہی ، ایک آزاد خارجہ پالیسی ہر ملک کی خواہش ہوتی ہے مگر آزاد خارجہ پالیسی کیلئے ملک کی معیشت کا مظبوط ہونا اور اپنے پیروںپر کھڑے ہونا ضروری ہے۔ خارجہ پالیسی یا پالیسی بیانات کیلئے بہت سوچ بچار کی ضرورت ہے ، یورپ جہاںسے ہماری تجارت کا بڑا حصہ ہے انہیں ناراض کرنے سے پہلے کشکول کو اپنے ہاتھوں سے پھینکنا پڑیگا یہی صورتحال امریکہ سے تعلقات کی ہے ۔کون نہیں جانتا کہ اقوام متحدہ ہو یا آئی ایم ایف اورایف اے ٹی ایف، سب امریکہ اور یورپ کے اشاروں پرچلتے ہیں پھر کسی ایک بلاک میں بیٹھنے کے نقصانات کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ جب تحریک عدم اعتماددروازے پر ہے پاکستانی قوم اپنے قائدین سے پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ انکے پاس متبادل پروگرام کیا ہے؟