خیبرپختونخواہ کا دارالحکومت پشاور ایک مرتبہ پھر خون میں نہلادیاگیا، اندرون شہر کے علاقے کوچہ رسلدار میں اہل تشیع کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکہ کیاگیا جس کے نتیجے میں اب تک60 سے زائد افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں جبکہ190سے زیادہ افراد زخمی ہیں، ان زخمیوںمیں سے چند افراد کی حالت تشویشناک ہے جس کی بنیاد پر ہلاکتوںکی تعداد میں مزید اضافے کا خطرہ ہے،اطلاعات کیمطابق ایک شخص نے پہلے مسجد کے دروازے پرموجود ایک پولیس اہلکار کو فائرنگ کرکے شہید کیا پھر مسجد کے اندر داخل ہوتے ہوئے ایک مزید سیکورٹی اہلکار کو زخمی کرنے کے بعد نمازیوں کے عین درمیان میں جاکر اپنے آپکو دھماکہ خیز مواد سے اڑالیا، چونکہ جمعہ کے اجتماع کی وجہ سے مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی اس وجہ سے نقصان زیادہ ہوا، افغانستان میںموجود دہشتگرد تنظیم آئی ایس (خراسان) نے اس دھماکے کے تھوڑی دیر بعدہی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کیا کہ دھماکہ انکی تنظیم کے ایک خودکش بمبار نے کیاہے۔پشاورشہرنے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے بے شمار حملوں کا سامناکیاہے جنکے نتیجے میں اعلیٰ سیاسی وحکومتی عہدیداروں سمیت سینکڑوں بے گناہ شہری اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھے جبکہ اس سے بھی بڑی تعداد میں لوگ شدید زخمی ہوئی جس میں سے کئی اب بھی مستقل طور پر معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں جس علاقے میں یہ واقع گزشتہ روز رونما ہوا ہے یہ پشاورکے پرانے شہرکا علاقہ ہے اور یہاں پہلے بھی دہشتگردی کے کئی واقعات ہوچکے ہیں اس علاقے میں اہل تشیع کی بھی ایک بڑی تعداد آباد ہے، دہشتگردوں نے ایک مرتبہ پھر مسالک کی بنیاد پر نشانہ بناکر ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے، جسکے نتیجے میں ممکنہ ردعمل کی صورت میں خطرناک صورتحال پیدا ہوسکتی ہے، حکومتی دعوئوں کے مطابق حملہ آوروں اور انکے سہولت کاروں کا پتہ لگالیاگیاہے اور انکے خلاف سخت ترین کارروائی زیرعمل ہے، زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے دہشتگردی کی اصل لرزہ خیز کارروائی کی شدید الفاظ میںمذمت کی ہے جس سے یقینی طور پر دنیا بھر میں اسلام اورمسلمانوں کا تشخص مزید مجروح ہواہے چونکہ یہ حملہ ایک مسجد پر کیا گیا ہے اور نشانہ بننے والے لوگ نماز جمعہ ادا کررہے تھے۔صدر اور وزیراعظم کی طرف سے مذمتی بیانات بھی آگئے اور وزیراعظم نے حسب معمول تحقیقات کا حکم بھی صادر فرمادیا مگر کیا کچھ ایسا مختلف ہوا جس سے یہ امید ہوسکے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکے گا؟پچھلے چند سالوں سے تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ آئی ایس (خراسان) نامی دہشت گرد گروپ نے افغانستان اور بالخصوص پاکستان میں دہشت گردی کی چند بڑی اور شدید کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، یہ گروپ افغانستان کی سرزمین پرموجودہیں اور وہاں سے یہی دہشت گردی کے حملے کرتاہے، اس گروپ نے طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد افغانستان میں بھی چند بڑی کارروائیاں کی ہیں جن کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ شہید اورزخمی ہوئے ہیں، دہشتگردی کی ان کارروائیوں میں اس گروپ نے شیعہ مسالک کے لوگوں کو بالخصوص نشانہ بنایاہے تاکہ فرقہ واریت کو بھی ہوادی جاسکے، افغان طالبان کی طرف سے سختی کے بعد اس گروپ نے اپنی کارروائیوں کا بنیادی مرکز پاکستان کو بنالیاہے مگر زمین پھر بھی افغانستان کی ہی استعمال ہورہی ہے، ایک ایسے وقت میں جب پاکستان بہت سے داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامناکررہاہے دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ بہت تشویش کی بات ہے، بلوچستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور پشاور جیسے اندوہناک واقعات اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ ہندوستان اپنی پاکستان دشمنی میں بڑھ چڑھ کر مصروف ہے اور وہ ہرطریقے سے پاکستان کو اندرونی طور پر غیرمستحکم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔دہشت گردی کا یہ حملہ حکومتی ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے ایک بڑی چیلنج بھی ہے اور انکی ناکامی کامنہ بولتا ثبوت بھی، ایک ایسا علاقہ جہاںماضی میں ایسے کئی واقعات ہوچکے ہوں وہاں ایک مسلک کی مسجد پر سیکورٹی کیلئے ناکافی انتظامات ایک سنگین نااہلی ہے جسکے ذمہ داروں کیخلاف بھی سخت کارروائی ہونی چاہیے، انٹیلی جنس کے اداروں کی کارکردگی پربھی سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں، آخر کار ان تمام اداروں اور محکموںپر قومی خزانے سے ایک خطیررقم خرچ کی جاتی ہے، ہردفعہ دھماکہ ہوتا ہے، مذمتی بیانات آتے ہیں اور حکومت کی جانب سے روایتی بیانات کے بعد خاموشی ہوجاتی ہے، جن کے پیارے دنیا سے چلے جاتے ہیں انکی زندگیاں اندھیرہوجاتی ہے جبکہ باقی سب لوگ چند دن بعد بھول جاتے ہیں اورپھر اچانک ایک اور واقع سب کوپھر سے یاد کروادیتاہے اور زندگی کا یہ سفرایسے ہی جاری ہے آخر ہم کب تک اپنے آپ کو وطن دشمنوں، دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے رحم وکرم پر چھوڑے رکھیںگے، فوج اور قانون نافذکرنیوالے اداروں کے لوگ اپنی جانوں کے نذرانے دیتے چلے جارہے ہیں مگر فیصلہ سازوں کی کارکردگی میںکوئی خاص بہتری نظرنہیں آرہی ہے۔(جاری ہے)
سانحۂ پشاور
Mar 10, 2022