یوں تو اس وقت پاکستان میں سیاسی پارہ ہائی ہے اور پیپلزپارٹی پی ٹی آئی کی تاریخ کو دہراتے ہوئے لانگ مارچ کی صورت میں ڈی چوک پہنچ چکی ہے اور مشترکہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کیلئے اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کروا دی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف سے اکثریت کے دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ اس وقت حکومت مشکلات کا شکار ہے۔ عمران خان نے جس طرح حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے مخلص ساتھیوں کو ٹشو کی طرح استعمال کر کے پھینکا اور مہنگائی و غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں کی وجہ سے عوامی حمایت کو گنوایا وہ اس مشکل صورتحال کا سبب ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کے پاس بھی کوئی واضح ایجنڈا یا شفاف ماضی نہیں ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے روس اور چین سے تعلقات مضبوط بنانے اور امریکہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اسکی ہر جائز و ناجائز بات ماننے سے انکار پر امریکہ کے ایما پر اپوزیشن سرگرم ہوئی ہے۔ اس ساری کشمکش اور تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ کیا نکلے گا اس کا فیصلہ چند روز میں ہو جائیگا۔ میرا آج سیاسی تجزیہ نگاری کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ یہ سیاسی ہلڑ بازی چلتی رہتی ہے۔ قوموں کی ترقی سیاسی شعبدہ بازیوں سے نہیں علمی، ادبی، تعلیمی، تحقیقی اور ثقافتی سرگرمیوں میں پہچانی جاتی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ گلی محلوں سے لیکر محلات تک ہمیں سیاست میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ ہم اپنی تہذیبی روایات کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں۔ ہمارے تمام ذرائع ابلاغ کا مرکز و محور سیاست اور سیاست دان ہیں۔ حال ہی میں ایک ادبی کانفرنس میں ترجمان حکومت پنجاب حسان خاور نے بہت عمدہ اور فکر انگیز باتیں کیں جو عوام تک پہنچنی ضروری تھیں لیکن کانفرنس کے اختتام پر ایک صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے ایک سیاسی بات کر دی۔ اگلے روز تمام میڈیا پر وہی سیاسی بیان شائع اور نشر ہوا۔ بیڑہ غرق ہو اس سیاست کا کہ میں علم و ادب پر بات کرنا چاہتا تھا مگر پھر سیاست بیچ میں آگئی لیکن یہ تقابلی جائزہ بھی ضروری تھا۔
ایک وقت تھا جب پاکستان میں علمی ادبی و ثقافتی سرگرمیاں تواتر سے جاری رہتی تھیں۔ حکومت کوئی بھی ہوتی ادارے ایسے پروگرام کرتے رہتے تھے۔ پھر دہشت گردی اور گزشتہ دو سال کرونا نے اس حسن کو گہنا دیا۔ معاشرتی سرگرمیاں جمود کا شکار ہو گئیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے مجھے ہزار اختلاف ہیں لیکن تین چار ماہ سے پاکستان خاص طور پر پنجاب میں مختلف پروگرام بہت ز یادہ ہونے لگے ہیں جو کہ بہت خوش آئند ہے۔ کراچی آرٹس کونسل میں عالمی ادبی کانفرنس بھی احمد شاہ کا کارنامہ ہے جو تسلسل سے ہو رہا ہے۔ پنجاب آرٹس کونسل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ثمن رائے کی زیر قیادت پنجاب کی تمام آرٹس کونسلوں میں پنجاب ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام اور ادبی و ثقافتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ ثمن رائے جس ادارے میں بھی جاتی ہیں اسے فعال اور متحرک کر دیتی ہیں۔ کمشنر لاہور کیپٹن (ر) محمد عثمان بھی خاصے متحرک ہیں۔ ہارس اینڈ کیٹل شو بھی ہونے جا رہا ہے اور جشن بہاراں جو ہماری روایت تھی جیلانی پارک میں جاری ہے اور شہریوں کی بڑی تعداد اس میں شرکت کر رہی ہے۔ اسی طرح وزیر ثقافت پنجاب خیال احمد کاسترو، سیکرٹری اطلاعات و ثقافت پنجاب راجا جہانگیر انور اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر لاہور آرٹس کونسل الحمراء ذوالفقار زلفی نے بھی علمی، ادبی و ثقافتی حوالے سے خاص سرگرمی دکھائی ہے۔ الحمراء میں پنجاب، بلوچستان اور سرائیکی کلچرل ڈے منائے گئے ہیں۔ فیض میلہ منعقد ہوا ہے اور مزید کئی پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں۔ منصور آفاق کی بطور ناظم مجلس ترقی ادب تقرری کے حوالے سے مجھے شدید اختلافات ہیں لیکن انہوں نے اس ادارے کو فعال کر دیا ہے۔ ادبی میوزیم قائم کرنے کے علاوہ ادبی سرگرمیاں بھی شروع کر دی ہیں صرف مارچ کے مہینے میں کئی ادبی تقریبات کا شیڈول جاری کیا گیا ہے جسے دیکھ کر خوشی ہوئی۔
کتاب میلے بھی ہماری تہذیبی روایات کا اہم حصہ ہیں کچھ عرصہ جمود کے بعد ان کا آغاز بھی ہو رہا ہے۔ لاہور کا سب سے بڑا کتاب میلہ 11 تا 13 مارچ ایکسپو سینٹر لاہور میں منعقد ہو رہا ہے جس میں سینکڑوں پبلشرز کی ہزاروں کتابیں خصوصی رعایت پر دستیاب ہوں گی۔ مختلف سرگرمیاں، ادبی تقریبات منعقد ہوں گی۔ کہا جاتا ہے کہ کتاب پڑھنے کا رُجحان کم ہو گیا ہے لیکن ایک بڑا طبقہ اس سے اختلاف کرتا ہے۔ لاہور علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ اُردو بازار چلے جائیں تو وہاں پبلشرز کی نئی دکانیں اور شوروم کھل رہے ہیں۔ جنرل اور نصابی کتابیں خریدنے والوں کا ہر وقت ہجوم ہوتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کتاب پڑھنے والے اب بھی موجود ہیں۔لاہوریے جہاں علم، ادب اور ثقافت کے دلدادہ ہیں وہاں کھابے کھانے کے بھی بہت شوقین ہیں جن دنوں ایکسپو سینٹر میں کتاب میلہ ہے ان ہی دنوں وہاں کھابوں کا بھی فوڈ فیسٹیول ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لاہوریے ایکسپوسینٹر میں صرف شکم سیری کیلئے جائیں گے یا کتاب میلے سے کتابیں خرید کر علم دوست ہونے کا ثبوت بھی دیں گے۔