آٹھ مارچ کو قومی اسمبلی سیکر یٹریٹ میں وزیر اعظم عممران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی ہے ۔تحریک عدم اعتماد سابق سپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں پیش کی گئی۔تحریک پیش کرنے جب ایا ز صادق سپیکر چیمبر کی جانب جانے لگے تو ان کے ہاتھ میں تحریک عدم اعتماد کا مسودہ تھا اپوزیشن کا طریقہ کار کے مطابق پہلے سپیکر اور پھر اس کے بعد وزیر اعظم کیخلاف بھی لائی جائے گی۔ اس حوالے سے بھی اپوزیشن کی کچھ واضع پوزیشن لیتی نظرنہیں آرہی ۔ پی ڈی ایم کے ایک اجلاس میں کہا گیا کہ تحریک عدم اعتماد سپیکر کی بجائے براہ راست وزیر اعظم کیخلا ف لائی جائے گی اب اللہ ہی بہتر جانے کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ اپوزیشن کی طرف سے یہی کہا جارہا تھا وہ بھی مسلسل کہ وزیراعظم عمران خان الیکٹیڈ نہیں سلیکٹیڈ وزیرااعظم ہیں جنہیں اپوزیشن وزیراعظم مانتی ہی نہیں اور پھر کہانی کچھ اسی طرح تین سال چلتی رہی ۔
اس کے بعد گذشتہ چھ سات ماہ کے دوران جب آئی ایم ایف کے مسلے مسائل چلنے لگے تو اپوزیشن کی طرف سے کہا جانے لگا کہ وزیر اعظم نے ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے جس کا تمام تر نزلہ ملکی معیشت اور ملکی خود مختاری پر پڑے گا ،یہ سلسلہ بھی چلتا رہا اور اب گذشتہ ماہ دو ماہ سے پھر سے اپوزیشن تروتازہ ہو کر وزیر اعظم پر سیاسی حملہ آور ہوئی اور کہا جانے لگا کہ اب اگر عمران خان مزید وز یراعظم رہے تو ملک تو بچے گا ہی نہیں اس لئے اب پانی چونکہ سر سے اُنچا ہو چکا ہے اس لئے وزیر اعظم کو جانا ہی ہوگا ۔اس مقصد کے لئے اپوزیشن جماعیتںپوری طرح سے متحد ہو گئیں جس کے نتیجے میں پر سوں منگل کے روز سپیکر چیمبر میں اپوزیشن کی طرف سے باقاعدہ طور تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی جس کے متعلق حکومتی حلقے بھی شروع سے یہی کہتے رہے کہ اپوزیشن میں اتنا دم ہی نہیں کہ وہ تحریک عدم اعتماد لے کر آئے مگر سب نے دیکھ لیا کہ تحریک عدم اعتما د پیش کر دی گئی ۔
یہاں اس امر کا جائزہ لینا بھی ضروری تصور ہوتا ہے کہ آیا یہ تحریک عدم اعتماد واقعی ملکی قومی مفاد میں لائی گئی ہے یا اس کے پیچھے حکومت مخالف قوتوں کی اپنی کوئی مجبوری یا مصلحت بھی پوشیدہ ہے تو اگر اسطرف دیکھا جائے تو حکومت اوراپوزیشن کی مابین پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی شروع شروع میں قومی دولت کی لو ٹ کھسوٹ اور منی لانڈرنگ کے الزمات اپوزیشن جماعتوں جن میں سرفہرست مسلم لیگ ن اور پی پی پی پی ہیں پر لگنے شروع ہوئے جن میں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تیزی اور سختی بھی ساتھ ساتھ آنے لگی ۔اس دوران بیرون ملک پڑی قومی دولت کی وطن واپسی کیلئے جتن کئے گئے مگر واپسی تو ممکن نہیں ہوئی البتہ حکومت کیلئے مزید پریشانیاں آئے روز جنم لیتی رہیں جبکہ دوسری طرف حکومت کی طرف سے بھی اس حوالے سے کوئی نرمی یا مصلحت جو بھی کہا جائے نظر نہیں آیا اور مسلسل طور پر اپوزیشن کو لوٹی گئی قومی دولت واپس لانے پر مجبور کیا جاتا رہا مگر بات پھر بھی نہیں بنی اور آخر چار و ناچار آج ملکی سیاسی حالات اس نہج پر پہنچ گئے جو خارج از امکان نہیں تھے ۔ یہ توتھی ملک کی اندرونی صورتحال جو آج وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی صورت میں ظاہر ہو ہی گئی جس کے بعد اب تھوڑا بہت جائزہ حکومتی موقف کا بھی لیے لیتے ہیں تا کہ حکومت کا اس حوالے سے موقف بھی سامنے لایا جاسکے تو اس میں اگر گہرائی سے جھانکا جائے تو حکومت کا موقف کچھ غلط بھی نہیں ہے اور وہ اسطرح سے کہ اگر لوٹی گئی قومی دولت کا آج کوئی حساب مانگ رہا ہے تو یہ ناراضگی یا خفگی کی بات نہیں بلکہ ملکی مفادات کے لحاظ سے بہت بہتر اور بھلی بات ہے مگر افسوس کہ قیام پاکستان سے آج تک کسی بھی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی اور آج اگر دی جانے لگی ہے تو اسے قبول کیاجانا چاہیے کہ یہ ملک قائم رہنے کیلئے بنا ہے تباہ ہونے کیلئے نہیں اور پھر ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ معاشی استحکام آجکل کے دور میں کسی بھی ملک کیلئے کتنا اہم ہے اور پھر یہ ملکی معاشی عدم استحکام ہی تو تھا جس کی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو اب خرابی ہی کیا ہے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی کہ ہم خود ہی تو زمہ دار ہیں آئی ایم ایف کی چھتری تلے پناہ لینے کے ۔تو پھر شور شرابہ کیسا اور عدم اعتماد کیسا ۔
اب زرا یہ بھی جائزہ لے ہی لیا جائے کہ آیا عدم اعتماد کی یہ تحریک کامیاب ہوگی بھی یا نہیں ۔تو اس کا بھی اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو کم از کم ہمیںتو کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ۔اور ہمیں کامیاب ہوتی نظر نہ آنے کی وجہ خود پی پی کے چیئرمین کی دو اِک روز سامنے آنے والی میڈیا گفتگوہے جس میں وہ یہ کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ وہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی سو فیصد گارنٹی نہیں دے سکتے تو پھر اگر تحریک عدم اعتماد کے محرکین اگر گومگو سی باتیں کرنے لگیں تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ متحدہ اپوزیشن کی لائی ہوئی یہ تحریک عدم اعتماد کامیابی سے ہمکنار ہوگی جبکہ دوسری طرف وزیر اعظم بھی اور وہ بھی پورے وثوق سے یہ کہہ رہے ہوں کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو وہ اس صورت میں اپوزیشن کا کیا حال کریں گے اس کیلئے اپوزیشن تیار رہے ۔تو اگر محرکین ِتحریک کا سو فیصد کامیابی کی امید نہیں اور دوسر ی طرف سے وزیر اعظم ا پنے خلاف لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد کو بے اثر کرنے کی پوری پوری حکمت عملی تیار کئے بیٹھے ہیں تو پھر تو ایسے میں یہی کہا جاسکتا ہے نا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد لاحاصل مشق ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔