”بند گلی“ 


پاکستان میں سیاسی کشیدگی ہو یا اقتدار کیلئے سیاسی اشرافیہ میں رسہ کشی کوئی نئی بات نہیں، لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ،عوام کی قوت خرید جواب دے چکی ہے، پاکستانی روپے کی بے قدری تھمنے کو نہیں آرہی، کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں بیر وزگار ہونے والے مزدور ہی نہیں صنعت کار اور کاروباری طبقہ بھی پریشان ہے کہ اگر معیشت کی خرابی نے طول پکڑا تو ملک سے پہلے وہ دیوالیہ ہو جائیں گے۔ اسکے باوجود ہمارے سیاستدانوں کے پاس عوام کو تسلی دینے کے سوا اپنے مخالفین کے خلاف بیان بازی کے، اور کچھ بھی نہیں۔ اوپر سے رمضان شریف کی آمد ہے، ناجائز منافع خور جنہوں نے کرونا وبا کے دوارن اموات میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے کفن کیلئے استعمال ہونےوالے کپڑے کی قیمت چار گنا بڑھا دی تھی، ان کےلئے رمضان کا مبارک مہینہ ''سیزن'' کی شکل میں رحمت بن کے آتا ہے۔ معمول کے حالات میں روزے داران کی ناجائز منافع خوری کو جیسے تیسے برداشت کرلیتے تھے تاہم آنے والے رمضان شریف میں ان پر کیا گزرے گی لوگ ابھی سے اس کیلئے فکر مند ہیں۔ اسکے حل کے طور پر عوام کی تشفی کی خاطر حکومت نے سادگی اپنانے کیلئے اپنے جاری اخراجات میں کٹوتی کا اعلان تو کیا ہے لیکن حکومتی سطح پر جاری اللے تللے دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کا اعلان عوام الناس کیلئے تھا کہ وہ اپنے اخراجات میں کمی لائیں۔ مطلب دو کی بجائے کھانا ایک وقت کھائیں، اگر پھر بھی اخراجات پورے نہیں ہوتے تو فاقے کریں۔ 
خیر یہ ایک جملہ معترضہ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام ہو یا معیشت کی بربادی اس کی بنیادی وجہ وہ ضد ہے جس کی ہماری سیاسی اشرافیہ بری طرح شکار ہے۔ ان کی انا ریاست اور عوام کے مستقبل پر حاوی ہو چکی ہے۔ قوموں سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں لیکن انہیں سدھارنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہی پارلیمانی نظام کی خوبصورتی ہے کہ عوام کے نمائندے ناگزیر حالات میں بھی ملک کو مشکلات سے نکالنے کی سبیل کرلیتے ہیں۔ مگر اب یہ عالم ہے کہ ہماری پارلیمنٹ میں موجود نمائندے از خود مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے انہیں عدالتوں میں لے جانے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں انتخابات کا تنازعہ اول تو سپریم کورٹ میں جانا ہی نہیں چاہئے تھاکیونکہ آئین میں اس کا حل موجود ہے۔ اس کے باوجود فیصلے میں تاخیر کی گئی۔ انتخابات ہونگے یا نہیں اس بحث نے پوری قوم میں ہیجانی کیفیت برپا کر دی جو پہلے ہی بری طرح معاشی دباﺅکا شکار تھی۔ عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کودیکھ کر2 معزز جسٹس صاحبان نے محترم چیف جسٹس کوسﺅموٹو لینے کے لیے خط لکھ دیا۔ اس پر محترم چیف جسٹس نے سوموٹو لیا اور ان دونوں معزز جسٹس صاحبان کو بھی بنچ کا حصہ بنا لیا گیا جو سﺅموٹو چاہتے تھے۔ تاہم سﺅموٹو لینے سے لے کر 9 جسٹس صاحبان پر مشتمل بنچ بننے اس کے ٹوٹنے کے بعد پانچ ججوں کے بینچ کی تشکیل تک میڈیا پر مختلف الخیال سینئر وکلا کے باہمی تبصروں اور تکرار نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنادیا۔ ایک طرف سے اعتراض ہوا کہ سوموٹو کی واضح حمایت رکھنے والے دونوں جج صاحبان بنچ کا حصہ کیوں ہیںمحترم چیف جسٹس کی طرف سے کسی سینئر جج کو بنچ کا سربراہ بنانے کی بجائے خود کو اس کی سربراہی کرنے پر بھی اعتراض کیلئے دلائل سامنے آئے۔ ٹی وی چینلوں پر جاری بحث میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو بنچ سے الگ کیے جانے پر بھی تنقید سامنے آئی کہ یہ دونوں جج صاحبان چونکہ سود موٹو کے خلاف تھے۔ اس لیے انہیں ہٹا دیا گیا۔ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ قانون دان اور فیصلہ کرنے والے تقسیم ہو چکے ہیں ،جو بھی فیصلہ آیا اس پر عملدرآمد آسان نہیں ہوگا۔
اس بحث مباحثے نے عوام کو مزید پریشان کردیا۔ رائے دینے والے معمولی تجزیہ کار نہیں بلکہ معروف قانون دان اور آئینی امور کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔علاوہ ازیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریری طور پر سپریم کورٹ میں سوال اٹھادیا کہ انہیں اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو مختلف بینچوں سے کیوں ہٹایا جاتارہا ہے۔ وہ اس کی قانونی طورپر وجہ جاننا چاہتے تھے۔ پانچ رکنی بینچ کی طرف سے تین روز تک جاری سماعت کے بعد جب فیصلہ آیا تو تین دو کے فرق سے 90روز کے اندر الیکشن کمیشن کو لازم قرار دیتے ہوئے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کے تعین کیلئے الیکشن کمیشن کو صدر پاکستان کے ساتھ مشاورت کا پابند توکردیا گیالیکن حکومتی موقف کی حمایت کرنے والے وکلاء اور وزیر قانون نے اس فیصلے کو اپنے موقف کی کامیابی قرار دے کر معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔اب حالت یہ ہے کہ معاشی بدحالی میںدن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ نئی مردم شماری کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ اس کیلئے بھی اربوں روپے درکار ہیں۔ بلوچستان ہویا خیبر پختوانخواہ دونوں صوبوں میں دہشت گرد آسان اہداف کی تلاش میں ہیں۔ملک میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے واقعات اور مہنگائی کے پھلتے ہوئے عفریت کے ساتھ ہی عوام کیلئے دوسرا بڑا مسئلہ سیاسی اشرافیہ کی ضد ہے جو ملک کو تیزی سے ایسے سیاسی تصادم کی طرف دھکیل رہی ہے جو ماضی کی طرح جمہوری نظام کو کسی بڑے حادثے سے دوچار کرسکتی ہے۔ ایسے میں 8مارچ کو الیکشن کمیشن کی طرف سے پنجاب میں انتخابی شیڈول کا اعلان اور اسی روز میں لاہور میں امن وامان کی کشیدہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان حالات میں 30اپریل کو پنجاب میں پ±ر امن انتخابات کا انعقاد مشکل ہوگا۔ وقت جس تیزی سے گزر رہا ہے ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں ایک ہی وقت میں انتخابات کی راہ نکالی جائے۔ لیکن اس کیلئے حکومتی اتحاد اور اپوزیشن دونوں کو مل بیٹھنا ہوگا مگر اس سے پہلے ایک دوسرے کو نیست و نابود کردینے جیسے بیانات کا سلسلہ بند کیا جانا ضروری ہے۔ دوسرے فریق کو کمزور کرکے اپنی مرضی کے لیے مذاکرات کی میزپر لانے کا طریقہ کار جنگ وجدال کی حدتک تو ٹھیک ہے۔ سیاست میں یہ رویہ ''ایک کی دم اور دوسرے کی چونچ ''گم کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن