درویش خدا مست و عظیم صوفی شاعر
سید عامر فیروز
عظیم صوفی شاعر و درویش کامل حضرت مادھو لال شاہ حسینؒ لاہوری کا عرس مبارک ہر سال مارچ کے آخری ہفتے میں منایا جاتا ہے۔ یہ میلہ چراغاں کے نام سے بھی مشہور ہے اور ہمارے پنجاب کی ثقافت کا بھی علمبردار ہے۔ لوگ اسے موسم بہار کی علامت بھی سمجھتے ہیں۔ عرس کے دوران لوگ ڈھول کی تھاپ پر عظیم صوفی شاعر کی کافیاں گاتے ہیں اور ملنگ ڈھول کی تھاپ پر دھمالیں ڈالتے روحانی سماں بندھ دیتے ہیں۔میلہ چراغاں کے بارے میں یونس ادیب (مرحوم) نے بھی کیا خوب تصویر کشی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں شاہ حسینؒ کے میلہ چراغاں کی خوشبوئیں روایتی بھی ہیں اورموسمی بھی ۔ اس وقت پنجاب میں بہار کا موسم ہوتا ہے اور پنجاب کی فصلیں پک کر تیارہو چکی ہوتی ہیں۔ لاہور میں بہار کی ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں اسے لاہور میں گلابی موسم کہا جاتا ہے۔
تیس چالیس برس قبل یہ میلہ شاہ حسینؒ کے مزار سے شالا مار باغ کے اندر لگتا تھا اور مارچ کے مہینے کے آخری ہفتے کی پہلی اتوار کو اس کا آغاز ہوتا تھا۔ ہفتے کی شام سے پہلے ہی لاہوریوں کی ٹولیاں دریاں اور دوسرے سامان لے کر شالا مار باغ پہنچ جاتے اور پکوان پکنے لگتے۔ لاہور میں قدم قدم پر مٹھائی اور بیسن کے قتلمے تیار کرنے والی دکانوں پر شامیانے لگ جاتے تھے اور کاریگر دن رات مٹھائیوں کی تیاریوں میں لگے رہتے تھے۔اس روز شہر کے سارے راستے باغبانپورہ کی طرف جاتے تھے۔ عید بقر عید کی طرح چراغوں کے میلے پر بھی نئے کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ۔ ہفتے کی شام تک دہلی دروازے سے شالا مار باغ تک میلے کی طرح جلوس پھیلا ہوتا۔ باغبانپورہ تک تانگوں اور بیل گاڑیوں کا سلسلہ رہتا۔ شاہ حسینؒ کے مزار کے وسیع و عریض احاطے میں ملنگوں، درویشوں اور فنکاروں کے کیمپ لگے ہوتے تھے۔ چادروں کے جلوس میں ڈھول کی تھاپ پر دھمالیں ڈالی جاتیں تھیں اور چراغ روشن ہونے لگتے تھے ، گمنام راگی روایتی سازوں پر شاہ حسینؒ کا کلام گاتے۔ سرخ چوغوں اور سرخ ٹیکوں والے ملنگ گھومتے پھرتے نظر آتے جب رات بھیگ جاتی تو آخری دھمال کی تیاریاں ہونے لگتیں اور جب باہر ڈھولچی میدان میں آجاتے تو پوری فضا رقص کرتی ہوئی مستی کی لہریں پھیل جاتیں۔ اس وقت لاہور کے آس پاس کے دیہاتوں سے میلہ دیکھنے والوں کی ٹولیاں بھی پہنچ چکی ہوتیں۔ دوسرے دن چراغوں کا میلہ صرف عورتوں کے لئے مخصوص ہوتا۔ الغرض چراغوں کا میلہ لاہور کی ثقافتی زندگی کا رنگین ترین حصہ تھا اور اب بھی کسی حد تک ہے اگرچہ وہ پہلے والی رونقیں باقی نہیں رہیں لیکن پھر بھی بہار کے اس موسم میں لاہوری اور نواحی دیہات کے لوگ میلہ چراغاں کی برسوں پرانی روایات کو نبھاتے چلے آرہے ہیں۔
شاہ حسینؒ کی کافیاں چار صدیاں گزرنے کے باوجود اب بھی عوام میں مقبول ہیں۔ شاہ حسینؒ نے اپنی کافیوں میں زندگی کی حقیقت کو منفرد انداز سے بیان کیا ہے انکی کافیوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہے جن کا موضوع تقدیر، راہ سلوک کی مشکلات، سچائی کی اہمیت، درد مندی اور وفا ہے اُن کا پورا کلام ایک علامتی نظام کا علمبردار ہے انکی ایک مشہور کافی ہے:
عملاں اپر ہوگ نبیڑا، کیا صوفی کیا بھنگی
جو رب بھاوے سوای تھیسی، ائی بات ہے چنگی
شاہ حسین نے اپنی کافیوں میں چرخے کی علامت کو بھی استعمال کیا ہے ان کی ایک مشہور کافی ہے: گھم چر خریا، تیری کتن والی جیوے
پنجاب کے دوسرے صوفی شعرا کی طرح حضرت شاہ حسینؒ کی کافیوں میں بھی دنیا داری سے احتراز کرنے اور آخرت کی فکر کرنے کا درس دیا گیا ہے وہ زندگی کو مختصر رات قرار دیتے ہیں اور اکثر کافیوں میں یہ کہا ہے کہ انسان اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے مگر حرص اور طمع کا مارا ہوا ہے۔
مادھو لال کو اپنے شیخ حضرت شاہ حسین سے بہت زیادہ عقیدت ،محبت اور لگاؤ تھا ان کو اپنے مرشد شاہ حسین کے انتقال سے بہت صدمہ پہنچا۔ گھنٹوں اپنے مرشد کی قبر مبارک سے بغل گیر رہتے اسی دوران انہیں خواب میں حکم ہوا تو انہوں نے دوبارہ راجہ کی ملازمت اختیار کر لی۔ چنانچہ اس بارانہوں نے بارہ سال راجہ کی ملازمت کی اور راجہ کے مرنے کے بعد واپس لاہور آ گئے اور حضرت شاہ حسین کے مزار پر مستقل رہائش اختیار کی۔ اسی اثنا میں دریائے راوی میں سیلاب آ گیا اور پانی شاہ حسین کے مزار تک چڑھ آیا۔ باہمی مشاورت سے دوستوں نے جب قبر مبارک کو کھولا تو قبر درمیان سے خالی نکلی۔ حضرت مادھو و دیگر دوست حیرت اور پریشانی میں جب واپس ہونے لگے تو قبر مبارک سے آواز آئی اور قبر سے ایک نور تابہ آسماں نظر آیا۔ ایک مرید کے دل میں صدا اٹھی کہ قبر کے اندر جا کر دیکھو وہ جب قبر مبارک میں داخل ہوئے تو انہیں ایک گلدستہ نظر آیا اور ان لوگوں کو شاہ حسین کی آواز سنائی دی کہ اللہ کی مہربانی سے میرا جسم گلدستہ بن گیا اور یہی گلدستہ ہمارا جسم ہے اس کو لے جاؤ مگر اس کو کوئی نہ سونگھے اور یہ راز کسی اور پر ظاہر نہ کرنا اس کو یہاں سے جلد لے جاؤ اور (بابو) موجودہ باغبانپورہ میں دفن کر دو جس کو مجھے دیکھنے کی خواہش ہو وہ مادھو کو دیکھ لے مجھ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں۔
حضرت شاہ حسین کی رحلت کو 13 سال گزر گئے تو ان کے لاڈلے حضرت مادھو لال حسین سجادہ نشین بنے۔ قدرت الٰہی سے اس وقت تک مادھو لال حسین شاہ کے ہمشکل بن گئے۔ شاہ حسین کے قدیمی دوست بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ شاہ حسین نے دوبارہ جنم لیا ہے۔ مادھولال کی 1646ء میں وفات ہوئی اور شاہ حسین کے حکم کے مطابق مادھو لال کو ان کے بغل میں سپرد خاک کیا گیا ۔تحقیق پر مبنی کتاب حضرت شاہ حسین حیات آثار تعلیمات آج بھی حضرت شاہ حسین کا صوفیانہ کلام پہلے دن کی طرح توانا اور متحرک ہے آج بھی لوگ میلہ چراغاں کے دوران جب انکی کافیوں پر ڈھولک کی تھاپ اور چمٹے کی آواز پر رقض کرتے ہیں تو ان کی شاعری زندگی کا ایک توانا روپ دھار کر دلوں میں اثر کر جاتی ہے۔ لوگ اسے لہک لہک کر اس لئے گاتے ہیں کہ یہ ان کے دل کی آواز ہے جسے گزشتہ چار صدیوں کے ماہ و سال بھی نہیں مٹا سکے۔ حضرت شاہ حسین کا کلام جدیدیت پر مشتمل ہے اور وہ ایسے ترقی پسند صوفی شاعر شمار ہوتے ہیں جنہوں نے سماجی حقوق، انصاف اور انسان کی بنیادی ضروریات کی بات کی ہے مثلاً:
راہ عشق سوئی دا نکہ، دھاگہ ہوئیں نا جاتیں
باہر پاک اندر آلودہ، کیا تو شیخ کہلائیں
دنیا جیون چار دہاڑے کون کسی نال رُسے
جس دن ونجاں موت تنے دل، جیون کوئی نہ رُسے
آپ کا ایک مشہور کلام ہے:
مائے نی میں کہنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال
دھواں دُھکھے میرے مرشد والا جاں پھولاں تاں لال
ترجمہ:۔ اے میری ماں ! میں وچھوڑے کی دکھ بھری کہانی کسے جا کر سناؤں میرے اندر میرے مرشد کی جدائی کی آگ جل رہی ہے اور دھواں نکل رہا ہے جب بھی ہاتھ پاؤں ماروں تو انگارے بھڑکتے ہوئے نظر آتے ہیں مجھے ہجر کے کانٹوں نے زخمی کر کے بے حال کردیا ہے میں دیوانی ہو گئی ہوں اور ہر لمحہ پیا کی جدائی کا خیال مارے جاتا ہے اور یہی میری زندگی کا حاصل ہے۔ شاہ حسین فقیر عاجز فرماتے ہیں کہ جب مجھے محبوب کا قرب حاصل ہو تو میں تب ہی سرخرو ہوں گا میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہے گی۔ شاہ حسین کا کلام ایک لافانی کلام ہے کیونکہ آپ کے کلام دنیا داری سے احتراز کرنے اور آخرت کی فکر کرنے کا درس دیا گیا ہے اور اپنے کلام میں فرمایا ہے کہ حرص اور طمع کا مارا ہوا جب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو صرف قبرجتنی زمین ہی درکار ہوتی ہے لہٰذا انسان کو حرص اور طمع سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔