اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) ایک سال قبل آج ہی کے دن 9 مارچ 2022ء کو پاکستانی حدود میں گرنے والے جوہری صلاحیت کے حامل براہموس کروز میزائل کی غیر ذمہ دارانہ اور خوفناک فائرنگ سے نام نہاد بھارتی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کی گھمبیر ہینڈلنگ اور خوفناک تکنیکی خامیاں بے نقاب ہوگئی تھیں۔ اس واقعہ نے میڈیا میں بھی کھلبلی مچا دی تھی اور اس وقت جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا۔ بھارتی حکام نے اس واقعہ کو چھپانے کی کوشش کی اور بعد ازاں اس کی کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا جس کے نتیجے میں فضائیہ کے تین نچلے درجے کے افسران کو پاکستان میں ‘‘میزائل کی حادثاتی فائرنگ’’ کے الزام میں برطرف کیا گیا اور بھارتی حکومت نے ‘‘انتہائی افسوسناک’’ واقعہ کو معمول کی دیکھ بھال کے دوران ‘‘تکنیکی خرابی’’ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ پاکستان نے اس واقعہ کی مشترکہ تحقیقات پر زور دیا تھا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستان کی جانب سے مشترکہ تحقیقات کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے واقعہ کی داخلی انکوائری عدالت تشکیل دی جو اگست میں مکمل ہوئی۔ میڈیا نے بھارتی حکام کے حوالے سے بتایا کہ انکوائری میں بھارتی فضائیہ کے بعض اہلکار معیاری آپریٹنگ طریقہ کار پر عمل کرنے میں لاپرواہی کے مرتکب پائے گئے، تاہم پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارتی عدالت کی انکوائری کے نتائج کو غیر تسلی بخش، ناقص اور ناکافی قرار دیا۔ پاکستان نے مشترکہ انکوائری کے اپنے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ بھارت نے میزائل لانچ میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم، سیفٹی اور سکیورٹی پروٹوکول، اور میزائل لانچ میں بھارت کی تاخیر کے اعتراف سے متعلق پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کو نظر انداز کیا، ماہرین کے مطابق بھارت کی جانب سے مکمل انکوائری کی ہچکچاہٹ نے نام نہاد بھارتی نیوکلیئر کمانڈ اتھارٹی میں سنگین خامیاں ظاہر کیں۔ تمام جوہری امور یا جوہری عوامل پر مشتمل فوجی حکمت عملی کے لیے نیشنل کمانڈ اتھارٹی وزیراعظم کی سربراہی میں فیصلے کرتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میزائل نے بھارتی اور پاکستانی فضائی حدود میں بہت سے مسافروں اور بین الاقوامی پروازوں کے ساتھ ساتھ زمین پر انسانی جانوں اور املاک کو خطرے میں ڈالا، کئی دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے جدید ترین میزائل سسٹم میں حفاظتی پروٹوکول کی سخت کمی کے سوا کوئی اور ممکنہ وضاحت نظر نہیں آتی جن کا کہنا ہے کہ دوسرے لفظوں میں بھارت کی نچلے درجہ کی کمان بظاہر لانچ کوڈز کو جانتی تھی اور یہ وار ہیڈز اور دیگر کینسٹرائزڈ (مستقل طور پر مسلح) میزائلوں کے معاملے میں انتہائی خطرناک ہے۔ مزید برآں اس واقعہ سے بھارتی مسلح افواج کے اہلکاروں کی تربیت اور نفسیاتی خراب جائزہ کی عکاسی ہوئی اور ان کے ارادوں پر سوالات اٹھائے گئے۔ ماہرین نے کہا کہ تحمل سے کام لے کر پاکستان نے ثابت کیا کہ وہ ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے اور اس کے پاس میزائل داغنے کا جوابدہ، مرکزی اختیار ہے جس کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا جسے بین الاقوامی میڈیا نے اجاگر کیا۔ دوسری طرف بھارت کی سٹریٹجک فورسز کمانڈ کے سابق سویلین اور فوجی حکام نے اپنے میڈیا انٹرویوز کے دوران انکشاف کیا کہ بھارت کے کچھ جوہری ہتھیار، خاص طور پر جو پاکستان کے خلاف استعمال کیے جانے کے لیے بنائے گئے ہیں، امن کے وقت بھی تیاری کی بہتر حالت میں رہے، کسی بحران میں سیکنڈوں یا منٹوں میں آپریشنل اور لانچ کرنے کے قابل تھے۔ فنانشل ایکسپریس انڈیا نے کہا کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ میزائل کے عملے کی جانب سے اپنی متعلقہ آپریشنل اور نگرا نی کی ذمہ داریوں میں سنگین غلطیاںکی گئیں اور اس واقعہ کے بین الاقوامی سطح پر سنگین نتائج ہو سکتے تھے۔ دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کو بھارت میں حالیہ ہندوتوا سے متاثر ہ پیش رفت اور پاکستان کے حوالے سے سینئر بھارتی وزراء کے اشتعال انگیز بیانات سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ ماضی میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے مختلف ارکان کے ساتھ ساتھ ہندوتوا کے نظریہ سے وابستہ دیگر گروپوں کی جانب سے پاکستان مخالف متعدد بیانات بھی د یئے گئے تھے۔