متکلم اسلام ، مجاہد ختم نبوت ڈاکٹر حافظ علامہ عبد الرشید اظہر شہید
ارشاداحمدارشد
دنیا میں ہر ذی روح جانے کیلئے ہی آتاہے اورپھر کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔تاہم جانے والوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جودنیا کو افسردہ ورنجیدہ چھوڑ جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر بھی ایک ایسی ہی شخصیت تھے ۔ جنہیںہمدرد ، مہمان نواز ، اعلیٰ پائے کے عالم دین ،کتاب وسنت کے داعی ،محقق ، مترجم ، متکلم اسلام اور مجاہد ختم نبوت جیسے لاتعداد اوصاف سے متصف سمجھا جاتا ہے ۔ آپ بہاولپور میں 1953ء میں تولد ہوئے ۔ بچپن ہی میں قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت پائی ۔ابتدائی تعلیم اور درس نظامی کی تکمیل کے بعد 1970ء میں فاضل فارسی کیا۔ فاضل فارسی سے لیکر مدینہ یونیورسٹی جانے اور پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرنے تک تمام امتحانات انھوں نے نمایاں پوزیشن کے ساتھ پاس کئے۔دوران تعلیم وقت کے بڑے بڑے اساتذہ اور شیوخ الحدیث کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا جن میں شیخ الحدیث حافظ محمد عبداللہ بڈھیمالوی ، شیخ الحدیث حضرت مولانا ابوالحسنات علی محمد سعیدی ، شیخ الحدیث حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، فضیلۃ الشیخ ابوبکر جابر الجزائری، فضیلۃ الشیخ عبدالرؤف اللبدی ، فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن بن حمد العباداور دیگر اساتذہ شامل ہیں ۔
حصول تعلیم کے بعد انھوں نے عالمی شہرت کی حامل درس گاہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد، جامعہ سعیدیہ سلفیہ خانیوال ،اورینٹل کالج لاہور ،جامعہ اسلامیہ لاہورمیں تدریس پر مامور رہے اور دعوت وتبلیغ اور تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ جامعہ لاہورالاسلامیہ میں قاضی کو رسز میں ججوں کو اصول فقہ کی تعلیم دی۔ بیرون ملک برطانیہ ،امریکہ اور انڈونیشیا کے دورے کئے اورمختلف موضوعات پر لکچردیئے اسی طرح اندرون ملک بھی ان کے دروس کا سلسلہ جاری رہتا۔ ان کا مزاج خالص دینی تھا ۔وہ عربی مدارس میں پیوندکاری کے خلاف تھے ۔انھوں نے مکتب الدعوہ اسلام آباد کے ریسرچ سکالر بعدازاں اسی ادارے کے نگران کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے اور بعض کتابوں کے تراجم بھی کئے ۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے ۔ان کی خداداد ذہانت اور عربی دانی کااندازہ اس سے کیا جاسکتاہے کہ مدینہ یونیورسٹی میں داخلے سے قبل ہی وہ محدث دوراں علامہ محمد ناصر الدین کی مشہور کتاب ''الحدیث حجۃ بنفسہ'' کا ترجمہ کرچکے تھے ۔ یہ ترجمہ مدینہ یونیورسٹی میں بھی ان کی شہرت کاسبب بنا ۔ ان کے کلاس فیلو عبدالمعید مدنی کہتے ہیں’’ میں مدینہ یونورسٹی میں زیر تعلیم تھا کہ اس دوران ایک نہایت ہی زیرک ، ہونہار ، ذی علم ، زندہ دل ، وجیہ اور قدآور نوجوان سے شناسائی ہوئی،معلوم کرنے پر پتا چلا کہ نوجوان کانام عبدالرشید اظہر ہے اور تعلق پاکستان سے ہے ۔مجھے معلوم ہواکہ عبدالرشید اظہر نے بھی علامہ ناصر الدین البانی کی کتاب ''الحدیث حجۃ بنفسہ'' کا ترجمہ کیا ہے ۔ دوستوں نے فیصلہ کیا کہ دونوں تراجم کا موازنہ کیا جائے تاکہ پتا چل سکے کہ کس کا ترجمہ بہتر ہے ۔ عبدالواحد مدنی، عبدالرشید اظہر اور خاکسار نے مل کردونوں تراجم کا موازنہ کیا۔ موازنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلاست بدرالزماں کے ترجمے میں ہے اور ترجمانی کا حق ان سے بہتر حافظ عبدالرشید اظہر نے ادا کیا ہے۔ اس تقریب ملاقات کے بعدجو شناسائی ہوئی وہ زندگی بھر قائم رہی۔اسلئے کہ حافظ عبدالرشید اظہر ایک دفعہ جس سے ملتے اس کے دل میں بس جاتے تھے‘‘ ۔
متکلم اسلام ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر خالص علمی آدمی تھے، صلح جو،متواضع اور ریاکاری سے کوسوں دور ۔ ان کو چونچلے بازمولویوں کے ناروا ہنگاموں سے کوئی مطلب نہ تھا۔ اس کے باوجود معلوم نہیں کن خفیہ عناصر کے اشارے پر انھیں شہید کردیا گیا۔ حالانکہ وہ کسی سیاستدان کی راہ کا روڑا تھے، نہ ان کوکسی سے رقابت تھی، وہ فقط کتاب وسنت اورعلماء سلف اورجماعت اہل حدیث کے علمبردار تھے ۔ وہ شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم اورمولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے علمی سلسلے میں سے تھے ۔ان کی حیثیت علمی حلقوں میں بہت معتبر تھی۔ان کی نظر حدیث ،علوم حدیث ،فقہ، اصول فقہ پر گہری تھی اور تفسیر قرآن سے بھی انھیں گہرا شغف تھا۔ امام بخاری اور صحیح بخاری سے ان کا لگاؤ انتہائی گہرا تھا۔ امام بخاری پر گفتگو فرماتے اور صحیح بخاری کی تشریح کرتے وقت ان پر سرشاری کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ حدیث ،فقہ اورعقیدہ پر ان کی تحریریں بہت وقیع اور اہم ہوتی تھیں۔
حافظ عبد الرشید اظہر اردو ، عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں بہترین تقریر و تحریر کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ وہ حقیقی معنوں میں صاحب ِ علم تھے اسلئے وہ علما کے بھی بے حد قدردان تھے ۔ ایک دفعہ وہ جامعہ اسلامیہ لاہور تشریف لائے تو صبح کی نماز کے بعدعلم نافع کی اہمیت پر شاندار درس دیا۔اسی دوران شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ المدنی بخاری شریف پڑھانے کے لیے کلاس میں تشریف لاچکے تھے حافظ عبد الرشید اظہر صاحب کو معلوم ہوا تو چل کر ملاقات کیلئے شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ کی خدمت کی حاضر ہوئے ۔ نہایت ہی ادب واحترام سے حال احوال پوچھا۔ کچھ دیر تبادلہ خیال کرنے کے بعد شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ صاحب سے اجازت چاہی اور عرض کیا کہ اسلام آباد کے لیے گاڑی کا وقت ہو رہا ہے اور ٹکٹ پہلے ہی بک کروائی ہوئی ہے۔ حافظ ثناء اللہ مدنی نے بڑے پیار اور محبت کے ساتھ کہا کہ آپ ہمارے پاس رہیں کچھ وقت گزاریں اسلام آباد جانے کا بندوبست میں خود آپ کے لیے کروادوں گا۔ پھر شیخین کی باہمی رضا سے یہی طے ہوا کہ حافظ عبد الرشید اظہر کا اپنی دیگر علمی مصروفیات کی بنا پر ابھی سفر کرنا بہتر ہے۔حافظین کریمین کا ایک دوسرے کا حد درجہ اکرام و احترام کرنے سے یہی بات سمجھ آتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی جلالت علمی اور قدر و منزلت کے بے حد معترف تھے۔شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ المدنی کے مجموعہ فتاوی کی پہلی جلد شائع ہوئی تو حافظ عبد الرشید اظہر نے تقریباََ ڈیڑھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ایک پرمغز اور تحقیق و تدقیق سے مملومقدمہ بعنوان ’’ مقدمہ اجتہاد و افتاء ‘‘ سپرد قلم فرمایا۔ حافظ صاحب کی یہ تحریر اپنے موضوع پر ایک مستقل کتاب ہے ، جس سے ان کی شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ المدنی سے محبت و اخوت کا اظہار اور علمی مسائل پررفعت شان بیان ہوتی ہے۔نا جانے وہ کون ظالم تھے جنھوں نے 17مارچ 2012کو بے دردی سے علم کے اس بحر بیکراں کو شہید کردیا ۔قاتل اگر چہ گرفتار کر لئے گئے پانچ سال سیشن کورٹ میں کیس چلا۔مگر سیشن کورٹ نے قاتلوں کو پھانسی پر لٹکانے کی بجائے رہائی کے تمغے عطا کئے ۔ اب کیس ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ہائی کورٹ میں دو تین دفعہ کیس کی تاریخ مقررہوئی لیکن سماعت سے قبل ہی تاریخ آگے ڈال دی گئی ۔یہ ہے ہمارے ملک کانظام انصاف کہ قاتل آزاد پھررہے ہیں اور مقتول کے ورثا انصاف کے حصول کیلئے در بہ در پھررہے ہیں ۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر شہید کے فرزند ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر کہتے ہیں کہ ہمارے والد گرامی کی شہادت کو مارچ کے مہینے میں 11سال مکمل ہوچکے ہیںلیکن قاتل باوجود شواہد اور اعتراف کے رہاہو چکے اور دندناتے پھررہے ہیں ۔ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر شہید امن کے داعی اورمحب وطن تھے۔انھوں نے زندگی بھر قرآن وسنت کا علم بلند کیے رکھا۔ قیامت کے دن ان شاء اللہ ان کے قتل کا حساب ہو کر رہے گا۔