شمس العارفین حضرت سید میراں حسین زنجانی(19 شعبان المعظم یوم وصال کے حوالے سے خصوصی تحریر )
سید احسان احمد گیلانی
قطب الاولیاء شمس العارفین پاسبان شریعت و طریقت حضرت سید میراں حسین زنجانی کا شمار ان اکابر صوفیاء میں ہوتا ہے جو برصغیر میں اسلام کی روشنی پھیلانے بت پرستوں کو کلمہ توحید سے پڑھانے معبود حقیقی کی پہچان اور مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسول کی شمع جلانے کے لیے سب سے پہلے لاہور تشریف لائے آپ خانوادہء سادات کے چشم چراغ تھے۔آپ حسینی سید تھے آپکے دادا سید ابو جعفر برقعی بغداد سے زنجان ایران آ کر آباد ہوئے جسکی وجہ سے آپکو زنجانی کہا جاتا ہے ۔سید میراں حسین زنجانی کے والد بزرگوار کا اسم گرامی سید محمود علی تھا جو اپنے وقت کے جید عالم تھے۔آپکی والدہ ماجدہ سیدہ مریم صغریٰ بہت نرم دل زاہدہ عابدہ خاتون تھیں۔آپ کا نسبی شجرہ پاک یوں بیان کیا جاتا ہے میراں حسین زنجانی بن سید محمودعلی بن ابو جعفر برقعی بن ابراہیم عسکری حسن بن حضرت موسیٰ ثانی بن حضرت ابراہیم بن حضرت سیدنا امام موسیٰ کاظم بن حضرت سیدنا امام جعفر صادق بن سیدنا امام محمد باقر بن حضرت سیدنا امام زین العابدین بن حضرت سیدنا امام حسین بن مولائے کائنات امیر المؤمنین سیدنا علی ؓ ۔سید میراں حسین زنجانی نے ابتدائی تعلیم زنجان میں ہی حاصل کی قرآن پاک علم حدیث و فقہ کے بعد آپکے اندر روحانیت کے باطنی اسرار جاننے کی تڑپ پیدا ہوئی۔کسی مرشد کامل کی تلاش میں نکل پڑے ان دنوں حضرت شیخ ابوالفضل ختلی رحمۃ اللہ کا بہت چرچا تھا۔آپ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ انکی خدمت میں حاضر ہوئے اور طریقت میں ان سے دست بیعت کیا۔آپکو حضرت سیدنا علی ہجویری داتا گنج بخش کا پیر بھائی بھی کہا جاتا ہے۔آپکے سلسلہ طریقت کی ترتیب اسطرح سے ہے حضرت خواجہ ابوالفضل ختلی حضرت خواجہ ابوالحسن حضرت شیخ ابوبکر شبلی حضرت سید الطائفہ جنید بغدادی حضرت سری سقطی حضرت معروف کرخی حضرت داؤد طائی، حضرت حبیب عجمی۔ حضرت خواجہ حسن بصری اور منبع ولایت حضرت سیدنا مولا علی۔سید میراں حسین زنجانی نے کئی سال اپنے مرشد کامل کی صحبت میں گزارے اور اسرار باطنی حاصل کرنے کے لیے عبادات و اذکار کی کثرت کی مجاہدے اور ریاضت کے دوران مشکلات اور سختیاں برداشت کیں اپنے مرشد کے ہر حکم اور فرمان کو پورا کیا ۔کئی سال ایک ہی جگہ گوشہ نشین رہے نہایت قلیل غذا پر قناعت کی فاقے بھی برداشت کیے مگر ذکر الہٰی سے غافل نہ رہے آپکا خاص وظیفہ اللہ جسکا آپنے کثرت ورد کیا روایات میں آیا ہے کہ بعض بزرگان دین صوفیاء نے اس ورد کو افضل قرار دیا ہے۔آپکے مرشد گرامی نے جب دیکھا کہ مرید صادق نے ظاہری و باطنی علوم میں عبور حاصل کر لیا ہے تو حضرت شیخ ابوالفضل ختلی نے خرقہء خلافت سے نوازا اور میراں کا لقب عطا فرمایا یہی وجہ ہے آج تک آپکو اسی لقب سے جانا اور پکارا جاتا ہے۔
سید میراں حسین زنجانی نے اپنے مرشد کے حکم سے دین کی تبلیغ آغاز کیا۔ ایک چھوٹے سے قافلے کی صورت میں تبلیغی سفر پر روانہ ہوئے تو آپکے حقیقی بھائی سید یعقوب شاہ زنجانی اور سید موسیٰ شاہ زنجانی بھی آپکے ہمراہ تھے ایک طویل مسافت طے کی اور سبزوار۔نیشاپور ہرات۔غزنوی۔کابل۔جلال آباد۔پشاور مارگلہ سے ہوتے ہوئے لاہور کو اپنا مسکن بنایا۔آپ نے اپنے لئے لاہور کے مشرقی علاقے کو پسند کیا اور دریا کے پار ڈیرہ لگایا جس کو آج کل چاہ میراں کہا جاتا ہے۔جن دنوں آپ لاہور تشریف لائے لوگوں کی زیادہ تعداد ہندو مذہب کی پیرو کار تھی مرشد کے حکم کے مطابق مصلحت پسندی اخلاق و کردار سے لوگوں کو قریب کیا۔ہندو زبان سیکھی تاکہ لوگوں کو انکی زبان میں سمجھایا جا اسلام کی حقانیت اللہ کی واحدانیت اور خاتم الانبیاء کے اسوہ مبارکہ کو لوگوں کے دلوںمیںاتارا جائے۔آپ روزانہ گلی گلی جا کر لوگوں کلمہ توحید و رسالت کی تبلیغ کرتے مذہب اسلام کی خوبیاں بیان کرتے جب لوگ آہستہ آہستہ قریب آنے لگے تو انکو دعوت حق قبول کرنے کے لیے کہتے۔بت پرستوں اور انکے پنڈتوں آپکی تبلیغ اسلام کا اثر دیکھا تو شد و مد سے انکی مخالفت شروع کر دی آپ آوازیں کستے تبلیغ کو ڈھونگ کہتے تالیاں بجا کر مذاق اڑاتے تین سال تک یہ تکالیف برداشت کیں مگر صبر و ہمت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔خواب مرشد کی زیارت ہوئی تو عرض کیا کہ اب تبلیغ کے کیا طریقہ اختیار کروں تو مرشد نے فرمایا میراں حسین تم نے یہ امتحان پاس کر لیا ہے اب سوائے جمعہ کے اپنے مسکن پر ہی عبادت و ریاضت کیا کرو چنانچہ آپ نے ایسے ہی کیا۔آپ نے عرصہ چوالیس سال دین کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا تین سال کے علاوہ باقی اکتالیس سال جمعتہ المبارک کو تبلیغ کا محور و مرکز بنایا اور یہ سلسلہ دم آخر جاری رہا۔آپ کا رہن بہت ہی سادہ درویشانہ تھا آپ کا لباس اپنے مرشد کے لباس کے مشابہ ہوتا۔
حضرت میراں حسین زنجانی کی عبادات عادات و اطوار یعنی ہر فعل سنت نبوی کے مطابق ہوتا۔اکثر شب بیداری کرتے روزہ رکھتے اور ذکر اللہ میں مشغول رہتے۔اللہ کا یہ کامل ولی آخری ایام میں کچھ عرصہ بیمار رہا اور انیس شعبان المعظم کو ابدی سفر پر روانہ ہوا۔آپ کا جنازہ جب شہر سے لایا جا رہا تھا تو حضرت شیخ داتا گنج بخش علی ہجویری لاہور میں داخل ہو رہے تھے آپکے روضہ مبارک چاہ میراں لاہور میں مرجع خلائق ہے دور حاضر میں آپکے افکار و تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے لیے سجادہ نشین پیر سید افضال حسین زنجانی شب و روز مصروف عمل ہیں اپنے والد سید اصغر علی شاہ زنجانی کے بعد آپ اپنے بزرگوں کی تعلیمات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اندرون و بیرون ملک تبلیغ و اشاعت کے علاوہ درگاہ کے ساتھ درسگاہ جامعہ زنجانیہ تعلیم القرآن کا قیام آپکی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سید میراں حسین زنجانی کے یوم وصال 19 شعبان کی مناسبت سے 22 ویں سالانہ محفل زیر سر پرستی سید افضال حسین زنجانی بمطابق 12 مارچ منعقد ہو رہی ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛