عدالتی نظام ٹھیک کرنے کی ضرورت! 

Mar 10, 2023

لقمان شیخ


لقمان شیخ
روبرو
کسی بھی معاشرے کی بقاء اور استحکام قانون کی حکمرانی اور ب. الادستی پر منحصر ہے۔ قانون کی اہمیت و افادیت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کرسکتا، قوانین معاشرے اور ریاست کے درمیان تعلق کو مستحکم اور پائیدار بناتے ہیں بلکہ لاقانونیت کی وجہ سے معاشرہ برباد ہوجاتا ہے۔ انسان کی اصلاح اور معاشرے کی بقاء  قانون کے عملی نفاذ کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ قانون کی حکمرانی کسی معاشرے کی بقاء  کی اکائی ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن میں قانون کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ کوئی بھی معاشرہ انصاف کی فراہمی اور یکساں نظام انصاف کے بنا ترقی نہیں کر سکتا. دوسری جنگ عظیم کے موقع پر برطانیہ کو کافی مشکلات کا سامنا تھا تو کسی نے ونسٹن چرچل سے پوچھا کہ جرمنی کی فوجیں اگر برطانیہ پر چڑھ گئی تو ہم کیا کریں گے ہماری سلامتی کا کیا ہو گا. چرچل نے مسکراتے ہوئے سوال کیا کہ کیا ہماری عدالتیں کام کر ہی ہیں جواب ملا کہ بلکل، چرچل نے پھر سوال کیا کہ کیا عدالتوں میں لوگوں کو انصاف مل رہا ہے اور عدالتیں صحیح کام رہی ہیں تو جواب ملا بلکل ایسا ہی ہے. چرچل نے کہا کہ پھر پریشان نہ ہو جہاں نظام انصاف ہو وہاں کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا.
حضرت علی رضی اللہ کا قول ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام نہیں چل سکتا. جہاں عدل و انصاف نہیں ہو گا وہ معاشرہ تنزلی کی طرف ہی جائے گا.
پاکستان میں عدالتی نظام تباہی کے دھانے پر ہے. سال ہا سال کیسز چلتے رہتے ہیں مگر لوگوں انصاف نہیں ملتا، جبکہ قانون کے طالب علموں کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے انکار ہے. 
ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رْول ا?ف لا انڈیکس گزشتہ سال2022 میں پاکستان قانون پر عمل نہ کرنے کے حوالے سے 130 ویں نمبر پر ہے جبکہ اس انڈیکس میں 139 ممالک شامل ہیں۔
جنوبی ایشیا میں قانون کی دھجیاں اْڑانے کے حوالے سے پاکستان کو پیچھے چھوڑنے والا واحد ملک افغانستان ہے جس کا درجہ حالیہ انڈیکس میں 134 ہے۔البتہ اقلیتوں پر مظالم، غیر منصفانہ قانون سازی اور انسانی حقوق کی وسیع تر خلاف ورزیوں کے باوجود بھارت کو اس انڈیکس میں 79 واں نمبر دیتے ہوئے وہاں قانون کی پاسداری کی صورتِ حال کو اوسط درجے پر رکھا گیا ہے جو ناقابلِ یقین حد تک حیرت انگیز ہے۔’’ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رْول ا?ف لا انڈیکس‘‘ میں ا?ٹھ نکات کی بنیاد پر ملکوں کی درجہ بندی کی گئی ہے جن میں حکومتی اختیارات کی حد بندی، بدعنوانی/ کرپشن کی غیر موجودگی، حکومت کا کھلا پن، بنیادی حقوق کی پاسداری، تحفظ اور امنِ عامّہ، قوانین کا مؤثر نفاذ، شہریوں کو انصاف کی فراہمی (سول جسٹس)، اور جرائم پیشہ عناصر کی مؤثر بیخ کنی (کریمنل جسٹس) شامل ہیں۔
پاکستان کا عدالتی نظام ایک کمرشل نظام بن چکا ہے جہاں وکیل اور جج مل کر مرضی کا فیصلہ کرتے ہیں، یہ کہنا غلط نہ ہو گا ایک تگڑا وکیل جو بار کا صدر بھی ہو ایک فاضل جج سے زیادہ طاقت رکھتا ہے. ایسے وکلاء  کی فیس کروڑوں میں ہوتی ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ بھی حکومتی اداروں پر دباؤ رکھنے کے لئے ایسے فیصلے سناتے ہیں جن سے حکومت ڈیلیور نہیں کر پاتی اور وہ پراجیکٹس عدالتی نظام کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں. جہاں کیسز کا فیصلہ جلدی کرنا ہو وہاں تاریخ پے تاریخ دی جاتی ہے اور جہاں معاملہ سنگین نہ ہو اور کوئی پرانی رنجش ذہن میں ہو تو فیصلہ دنوں میں آ جاتا یے. اچنبھے کی بات یہ ہے کہ بعض کیسز میڈیا پر رپورٹ ہوتے ہیں، انکی ویڈیوز موجود ہوتی ہیں سب گواہ اور ثبوت موجود ہوتے ہیں مگر عدالتی نظام کو تفتیش ناقص نظر آتی ہے، ثبوت ناکافی لگتے ہیں اور ملزم پیسے کے زور پر رہا ہو جاتے ہیں.
قارئین، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام مفلوج ہو چکا ہے. عدل و انصاف کی فراہمی مشکل ترین ہو چکی ہے. امیر کے لئے الگ اور غریب کے لئے الگ نظام انصاف ہے. یقیناً نظام عدل میں  خرابی ہے. اگر پاکستان کے نظام کو ٹھیک کرنا ہے تو نظام عدل کو درست سمت میں لانا ہو گا. نظام عدل بہتر ہو گیا تو کسی اور متبادل  نظام کی ضرورت نہیں پڑے گی.
پاکستان کے موجودہ حالات کی ذمہ داری ہمارے عدالتی نظام پر آتی ہے. پانامہ کیس میں عدالتی فیصلے سے ایک سیاسی لیڈر کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا اب اسی ریت کو دہرانے کے لئے طاقتور قوتیں ملک کے مشہور  لیڈر کو نا اہل کروانا چاہتی ہیں. عدالت عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتی ہے مگر وہ پیش نہیں ہوتے عدالتی مذاق بن گیا ہے. ملک کی سب سے بڑی عدالت انتخابات کروانے کا کہتی ہے مگر اس پر عمل نہیں ہوتا. کسی بھی سیاسی جماعت کی منشا کے بر عکس عدالتی فیصلہ آتا ہے تو اس پر تنقید شروع ہو جاتی ہے. جب تک عدالتی نظام ٹھیک نہیں ہو گا ملک خداداد کا حال بھی ٹھیک نہیں ہو گا.اس لئے ہماری اعلی عدلیہ کو سوچنا ہو گا کہ انکے فیصلے ملک کو کس سمت میں لے جا رہے ہیں اور کس طرح وہ اپنے عدالتی نظام کو بہتر کر سکتے ہیں.

مزیدخبریں