جب نام پکارے جائیں گے۔


تابندہ خالت

ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ جیسی روح ویسے فرشتے یعنی جیسی نیت ہوتی ہے ویسا ہی پھل ملتا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس وقت ایک عجیب ڈگر پر رواں دواں ہے جس کا انجام تباہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اخلاقی لحاظ سے جس معاشرے کا شکست و ریخت کا سائیکل شروع ہو جائے اور اس کے نوجوان معاشرے کی دوبارہ تعمیر کے لیے کاہلی و تساہل سے کام لیں یا جی چرائیں یقیناً اغیار اس قوم پر غالب آ جاتے ہیں کیونکہ اخلاقی اقدار میں اتنی طاقت ہے کہ وہ معاشرے کا شیرازہ بکھرنے نہیں دیتے۔ جب سے دنیا بنی ہے لاکھوں کروڑوں لوگ آئے اور اپنے حصے کی زندگی جی کر قبروں میں اس کن فیکون کے منتظر ہیں کہ جب نامہ اعمال یعنی کارکردگی کارڈ ہاتھوں میں تھمائے جائیں گے۔ پتہ نہیں نامہ اعمال کا رجسٹرڈ دائیں ہاتھ میں تھمایا جائے گا یا کہ بائیں۔ روز آخرت ایسا ہوگا کہ ایک بڑی سکرین لگی ہوگی اور اس پر ہمارے نام پکارے جائیں گے کہ فلاں بنت فلاں نیک بخت ہے یا کہ بد بخت۔ فلاں سکالر کا رزلٹ پیش کیا جاتا ہے یا فلاں دھوکہ باز شخص کے اعمال میزان میں تولے جائیں۔ قارئین ذرا تصور کیجئے کہ کیا گزرے گی؟۔ جب رب ذوالجلال والاکرام سب کے سامنے حساب شروع فرمائے گااور کہے گا پڑھ آج تو اپنی کتاب پڑھنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے جسم کے اعضا اس کی گواہی دیں گے۔ قارئین آج تو ہم سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈالتے ہیں، ڈیلیٹ کر دیتے ہیں، سرچ ہسٹری غائب کر دیتے ہیں۔ سچی گواہی چھپا دیتے ہیں، کتمان حق کرتے ہیں۔مگر روز محشر ایسا آپشن نہیں ہوگا۔ اس دن جب نام پکارے جائیں گے تب 500 یونٹ کو 1500 یونٹ لکھنے والے میٹر ریڈر کو بلایا جائے گا، مکی آٹا اور مدنی گھی میں ملاوٹ کرنے والوں کو جھنجھوڑا جائے گا۔خالص دودھ کا نعرہ لگاکر پانی اور پاوڈر کی ملاوٹ کرنے والا دودھ فروش، پیسوں کی ڈیمانڈ کرکے ایف آئی آر کاٹنے والا انصاف پسند ایس ایچ او، گھر بیٹھ کر حاضری لگوا کر حکومت سے تنخواہ لینے والا ہیڈ ماسٹر، ناپ تول میں کمی کرکے پوری رقم لینے والا دوکاندار ، معمولی سی رقم کیلیے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے والا وکیل، بڑے صاحب(آفیسر) کے لیے رشوت لے جانے والا چپڑاسی، بین الااقوامی مقابلوں میں میچ فکسنگ کرکے ملک کا نام بدنام کرنے والا کھلاڑی، نقلی دواوں پر کمیشن لینے والے ڈاکٹر، کڑور لے کر لاکھ کی سٹرک بنانے والا ایم پی اے، اپنے قلم کی قیمت لگا کر ملک دشمن عناصر کا ساتھ دینے والا صحافی۔۔۔ ان سب کو ان کے ٹائٹل سے پکارا جائے گا۔ 
عصر حاضر میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو اعمال رزیلہ میں ملوث ہونے کے باوجود پارسا، عالم اور کنفرم جنتی سمجھتا ہے اور باقی لوگوں کو گناہ گار. اس بات کو ایک چٹکلہ سے واضح کرنا چاہوں گی کہ ایک مولوی صاحب رقت بھری آواز میں گڑگڑا گڑگڑا کر دعا مانگ رہے تھے۔۔۔یا اللہ میں بڑا ہی کمینہ بندہ ہوں۔مجمعے نے زوردار آواز لگائی آمین۔۔۔یا اللہ۔۔۔میں بڑا " گناہ گار انسان " ہوں ،مجمعے نے نعرہ لگایا - آمین۔۔۔یا اللہ ہر صغیرہ کبرہ گناہ میرے اندر ہے 
مجمعے نے زور سے کہا۔۔۔آمین
یا اللہ میں۔۔۔ بات ابھی مولوی صاحب کے منہ میں ھی تھی کہ مجمعے نے فلک شگاف نعرہ بلند کیا - آمین۔۔۔مولوی صاحب کہنے لگے۔تم لوگوں نے بھی کچھ کیا ہے یا سارے گناہ میں نے ہی کر ڈالے ہیں۔مجمعے نے کمزور سی آمین کہی۔ مولوی صاحب نے دعا فرمائی۔یا اللہ راجہ صاحب کی دنبی کی قربانی قبول فرما اور اس کا ثواب اس بکروال کو عطا فرما ،جس کی یہ دنبی راجہ صاحب نے چوری کی تھی۔ایک آمین کم ھو گئی۔یا اللہ ملک صاحب جو شادی شدہ عورت بھگا کر لے گئے تھے وہ تینوں بچوں سمیت ان کو معاف فرما دے۔ایک اور آمین کم ھو گئی۔
یا اللہ ان بٹ صاحب کو دیکھ، چہرے سے ہی لگ رہا ہے ھفتے سے کچھ نہیں کھایا۔۔۔یا اللہ ان کو وہ 20 کنال زمین معاف فرما جو یہ اپنی بیوہ بہن کی دبا کر بیٹھے ھیں اور وہ بیچاری پھٹے کپڑوں کے ساتھ گھر گھر کام کر کے روٹی کھاتی ہے۔ایک اور آمین کم ھو گئی۔
یا اللہ ، فیروز خان کی تراویح کو قبول فرما اور اس تراویح کے صدقے ان کا روزے نہ رکھنا معاف فرما دے۔ایک اور آمین کم ھو گئی۔یا اللہ محمد حسین قصاب کو گلے کے کینسر سے محفوظ رکھ جو لوگوں کے گائے بھینس کو آٹے میں سوئیاں کھلا دیتا ھے اور وہ بھوکے پیاسے تڑپ تڑپ کر ذبح ھو جاتے ھیں۔ایک اور آمین کم ھو گئی۔
میرے اللہ ،لیاقت حسین کو مثانے کے کینسر سے محفوظ رکھ جو ھر اس گائے بھینس کے تھن درانتی سے کاٹ دیتا ھے جو اس کی فصل میں گھس آتی ھے۔مسجد میں سناٹا چھا گیا 
یا اللہ ان سب گنہگاروں کی روٹی کھا کھا کر مجھ ناچیز سے بھی جو گناہ سر زد ہو گئے ھیں ، ان سے درگزر فرما۔۔۔ سب کی طرف سے مجھ اکیلے کی آمین ، ثمہ آمین ،یوں مولوی صاحب نے دعا کو متوازن کیا۔

ای پیپر دی نیشن