تحفہِ رمضان کلامِ ربی۔۔۔


مروہ خان میرانی
marwahkhan@hotmail.com

جب سے میں نے لکھنا شروع کیا ہے اور میری کتاب شائع ہوئی ہے، میرا اکثر لوگوں سے یہ سوال ہوتا تھا، کیا آپ نے میری کتاب پڑھی ہے؟۔۔۔۔
ایک دن اچانک مجھے اس خیال نے جھنجھوڑ دیا کہ جو ربِ کائنات ہے سب کا خالق و مالک ہے جس کا کلام انسانوں کے لئے مشعلِ راہ ہے، لوگوں کی جرا¿ت و جسارت اس قدر ہے کہ وہ اس ہستی کی (Divine) کتاب نہیں پڑھتے تو ہم جیسے عام مصنفوں کی کیا اوقات ہے؟ 
فرض کیجئے اگر اللہ سبحانہ تعالی ہم میں سے کسی کو بھی اپنے پاس اسی وقت واپس بلا لے، چاہے ہماری عمر جو بھی ہے کیا ہم اللہ تعالی کو یہ کہہ سکیں گے کہ اللہ تعالی زندگی میں ہم اتنے مصروف تھے کہ اس دنیا میں تیری کتاب پڑھنے کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں تھا۔ کیا یہ بہانہ رب العزت کے آگے ہمیں شرمندگی سے بچا لے گا؟ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم اللہ تعالی کو یہ کہیں کہ اللہ تعالی تو نے جو ہمارے فائدے کیلئے کتاب اتاری، جس پہ ہم تہہ دل سے ایمان بھی لائیں پر زندگی میں ہمیں کھول کے اسے پڑھنے کی توفیق نہیں ملی۔ میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو کہ اپنی چالیس سال کی عمر تک پہنچ چکے ہیں لیکن ابھی تک اگر آپ ان سے سوال کرے تو انہوں نے قرآن کا ترجمہ زندگی میں کبھی ایک مرتبہ بھی ختم نہیں کیا ہوا۔ 
اس کی مثال بالکل اسی طرح سے ہے کہ اگر ہم کوئی مشین خریدتے ہیں اور اس مشین کے ساتھ ہمیں اسکا مینول ملتا ہے کہ ہم نے اس کو کس طریقے سے چلانا ہے۔ اگر ہم اس مشین کو اپنی مرضی سے چلائیں گے تو ہم شاید اس کے پ±رزے بھی خراب کر دیں اور اس کو صحیح طریقے سے چلا بھی نہ سکیں۔ بالکل اسی طرح جس ذات نے ہمیں پیدا کیا ہے اس نے ہمارے ساتھ ہمارا مینول بھی اتارا ہے کہ ہمیں کس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے اور انسانی مشین کس طریقے سے صحیح چلے گی۔ 
رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن پاک کی تلاوت اور اس کو سمجھنے سے بہتر اور کوئی عبادت نہیں کیونکہ قرآن پاک کا نزول بھی رمضان میں ہی ہوا۔ اور ہر رمضان جبریل علیہ السلام، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے تھے اور ہر رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو قرآن پاک سناتے تھے۔ قرآن پاک میں اللہ سبحانہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
"اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے"۔(بنی اسرائیل:82)
"اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے"۔ (سورة الانفال آیت نمبر۶،پارہ ۹)
 رسول ﷺ نے فرمایا: "جس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک حرف پڑھا، اس کے لئے اس کے بدلہ میں ایک نیکی ہے اور یہ ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔ (گویا صرف الم پڑھنے سے تیس نیکیاں مل جاتی ہیں)"- (ترمذی)
اور یہی ایک حرف رمضان المبارک میں پڑھنے سے سات سو نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔
قرآن کو جو لوگ مظبوطی سے تھام لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا ہے اور قرآن سے دوری ذلت کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ 
نبی اکرم ﷺنے فرمایا :
” اللہ تعالیٰ اس کتاب قرآن مجید کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سربلند فرمائے گا اور دوسروں کو ذلیل کرے گا “۔ (مسلم)
قرآن پاک کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ یہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ قرآن ایک ایسا ساتھی ہے جو کہ نہ صرف قبر میں بلکہ قبر کے بعد میں آنے والے مراحل میں بھی آپ کے ساتھ ساتھ رہیں گا یہاں تک کہ وہ آپ کو کو جنت تک نہ پہنچا دے۔ انشاءاللہ
رسول ﷺ نے فرمایا:
” تم قرآن پڑھو اس لئے کہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا “۔ (مسلم)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قرآن کی سفارش کو قبول کیا جائے گا۔ قرآن کو پڑھنے کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کے لئے بھی جھگڑا کرے گا اور نجات دلائے گا۔ 
رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
” قیامت کے دن قرآن اور قرآن والے جو اس پر عمل کرتے تھے، ان کو لایا جائے گا۔ سورت بقرہ اور آل عمران پیش پیش ہوں گی اور اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑا کریں گی“۔(مسلم)
صحابہ کرام قرآن پاک کی چند آیات کو سمجھنے کے لیے سالہاسال لگا دیتے تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے کہ: "مجھے اپنی زندگی کا کوئی دن بھی ایسا پسند نہیں جو کہ قرآن پڑھے بغیر گزرے"- سبحان اللہ 
حدیث شریف میں ہے رسول ﷺ نے مجھے کہا: 
"اے ابو ذر! آپ کے لیے جب آپ صبح کے وقت نکلیں گے اور اللہ کی کتاب سے ایک آیت سیکھیں گے تو آپ کے لئے سو رکعت نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور اس کے بارے میں کوئی بات سیکھتے ہو خواہ اس پر عمل کیا جائے یا نہیں ایک ہزار رکعت پڑھنے سے بہتر ہے"- (بخاری) 
نماز کے ساتھ قرآن پاک کو پڑھنا اور سمجھنا ہمارا روزانہ کا معمول ہونا چاہیے اگرچہ صرف ایک آیت ہی کیوں نہ ہو اور اللہ سبحانہ تعالیٰ اتنا رحیم اور کریم ہے کہ اس نے قرآن پڑھنے کی آسانی ہمیں خود بتائی ہے- ارشادِ ربانی ہے 
" قرآن میں سے جتنا آسان ہو اتنا پڑھو۔ اسے معلوم ہے کہ عنقریب تم میں سے کچھ لوگ بیمار ہوں گے اور کچھ زمین میں اللہ کا فضل تلاش کرنے کیلئے سفر کریں گے اور کچھ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوں گے تو جتنا قرآن آسان ہو پڑھو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو اور اللہ کو اچھا قرض دو اور اپنے لیے جو بھلائی تم آگے بھیجو گے اسے اللہ کے پاس بہتر اور بڑے ثواب کی پاو¿ گے اور اللہ سے بخشش مانگو، بیشک اللہ بہت بخشنے"- (سورت المزمل)
ایک اور اہم نقطہ جو قرآن پڑھنے سے پہلے ہمارے ذہن میں لازمی ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ قرآن پڑھنے سے پہلے شیطان کے وسوسوں سے پناہ مانگنی چاہیے تاکہ شیطان کے بھٹکانے کی راہیں ہموار نہ ہو سکیں۔
" تو جب تم قرآن پڑھو تو تم پناہ مانگو اللہ کی شیطان مردود سے"- (سورہ نمل: 98)
ہمارے پیارے آقا نبی کریم ﷺنے آخری خطبہ میں یہ خاص تلقین فرمائی تھی کہ میں اپنے پیچھے قرآن چھوڑے جا رہا ہوں، جس کی رسی کو مضبوطی سے تھام کے رکھنا ہم سب مسلمانوں کا فرض ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی اس بابرکت مہینے میں ہمیں قرآن پاک پڑھنے اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یاد رکھیے!
"رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہو سکتا ہے ایک تو اس پر جسے اللہ نے قرآن مجید کا علم دیا اور وہ اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا رہا اور دوسرا آدمی وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اسے محتاجوں پر رات دن خیرات کرتا رہا"- (بخاری)
الحسن البصری رضی اللہ عنہ کا خوبصورت قول ہے:
"بے شک پہلے آنے والوں نے قرآن کو اپنے رب کی طرف سے ظاتی خطوط کے طور پر دیکھا۔ چنانچہ وہ رات کو غور و فکر کرتے اور دن کو اس کے لیے تڑپتے۔

ای پیپر دی نیشن