علامہ محمد اقبال کے تفکر کی ہر جہت جہاں امتِ مسلمہ کی فَراغ بالی کے لئے جہدِ مسلسل کی تلقین اور حکمت و دانائی کے پنہاں راز آشکار کرتی ہے وہیں پڑمردگی اور یاسیت میں ڈوبی سوچ کو حیاتِ نو کا سندیسہ دیتی بھی نظر آتی ہے۔ یہی فکرِ عَمِق مسلمِ خوابِیدَہ کو گاہے بگاہے جھنجھوڑ کر جگاتی اور اغیار پر غلبہ حاصل کرنے پر مائل کرتی ہے۔ اقبال نے کہا تھا،
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کِشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اقبال کی اِسی امیدِ نو کی سہارے برصغیر کے مسلمان محمد علی جناح کی قیادت میں ایک علیحدہ مملکت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ جونہی امتِ مسلمہ کے رہبروں نے ہَوَسِ حکمرانی میں ’مٹی میں نم‘ کَمیاب کرکے زرخیزی کو بَنجَر پَن میں بدلا، مغلوبیت ا±مہ کا مقدر بن کر رہ گئی۔ تاہم پھر بھی یہ نمی کبھی نہ کبھی سرسبز ہریالی اگانے کا باعث ضرور بنتی رہی۔ مقلدینِ اقبال ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ کئے بغیر قومی مفاد کو ذاتی منعفت پر ترجیح دیتے رہے اور اقبال کے شاہین علم و تحقیق کی دلفریب کرنوں سے اجلی صبحیں طلوع کرتے رہے۔
کماو¿ں کی آئرین روتھ پنت نامی برہمن زادی لیاقت علی خان کے عقد میں آنے کے بعد بیگم رعنا لیاقت کے نام سے مشہور ہوئیں۔ 1961ءمیں جب وہ نیدرلینڈز میں پاکستان کی سفیر مقرر ہوئیں تو وہاں کی ملکہ کی ا±ن سے دوستی ہو گئی۔ وہ اور ملکہ اکثر Chess کھیلتی تھیں۔ ایک دن کھیل کے دوران ملکہ نے کہا کہ اگر آج آپ مجھ سے جیت گئیں تو میں اپنا محل آپ کے نام کر دوں گی۔ کھیل شروع ہوا تو بیگم رعنا لیاقت جیت گئیں۔ ملکہ نے حسبِ وعدہ محل ان کے نام کرنا چاہا مگر آفرین ہے رعنا لیاقت پر! انہوں نے خود کی بجائے وہ محل حکومتِ پاکستان کے نام کروا دیا۔ آج بھی پاکستانی سفارتخانہ مذکورہ عمارت میں واقع ہے۔
پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع گوادر شہر شروع دن سے ہی اپنے جغرافیائی خدوخال کے اعتبار سے خصوصی اہمیت حاصل رہا ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت یہ علاقہ سلطنتِ عمان کا حصہ تھا۔ پاکستان کے لئے اسے حاصل کرنا سیاسی، اقتصادی اور جغرافیائی لحاظ سے بہت ضروری تھا۔ عمان پورٹ اور ایرانی سرحد سے قریب تر واقع ہونے کی وجہ سے اس کا حصول آسان نہ تھا۔ اس کی ملکیت پر بلوچ قبائل اور مسقط میں جنگ بھی ہوچکی تھی۔
وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے کی ٹھان لی۔ اِس مشکل ہدف کے حصول میں مسز نون کی خدمات اور خاموش سفارت کاری کا بھی بڑا عمل دخل رہا۔ بالآخر 8 ستمبر 1958ءکو ایک گولی چلائے بغیر ا±م الفساد کہلایا جانے والا دو ہزار چار سو مربع میل پر محیط گوادر ایک نایاب تحفے کی شکل میں پاکستان کو مل گیا۔
سانحہ 1971ء کے بعد دورہء بھارت کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کے دل و دماغ میں یہ راسخ حقیقت سما گئی تھی کہ جب تک پاکستان ایٹمی قوت نہیں بنتا، تب تک بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مذاکرات کرنا ایک بے معنی اور لاحاصل مشق ہوگی۔ انہوں نے آنے والے خطرات کی پرواہ کئے بغیر ایٹمی پروگرام پر کام کرنا شروع کیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو خصوصی طور پر پاکستان بلا کر انہیں ایٹمی پروگرام کی باگ ڈور سنبھالنے کی دعوت دی۔ جذبہءحب الوطنی سے سرشار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے یورپ کی چَکا چوند زندگی کو خیر باد کہتے ہوئے پاکستان کو اپنا مستقل مسکن بنا کر کام شروع کر دیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کی شبانہ روز کوششوں سے پاکستان ایٹمی کلب کا ممبر بننے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تو پاکستانی قوم ہی نہیں، عالمِ اسلام بھی خوشی سے نہال ہو گیا۔ 28 مئی 1998ءکو نواز شریف نے امریکی دباو¿ کی پرواہ کئے بغیر ایٹمی دھماکے کرکے بھارت سے حساب کتاب چکتا کر دیا۔
اپنی ذات کی نفی کرکے انسانیت کی خدمت کو مقصدِ حیات بنانے والے عبدالستار ایدھی کا کوئی نعم البدل پاکستان میں پیدا نہ ہو سکا۔
ارفع کریم، ایک پاکستانی ہونہار طالبہ اور غیر معمولی ذہین بچی 2004ءمیں محض نو سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل (ایم سی پی) بن گئی۔ اس بنا پر ارفع کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں درج گیا گیا۔ ارفع نے مختلف بین الاقوامی فورموں اور ٹیک ایڈ ڈویلپرز کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
2005ءمیں حکومت پاکستان نے ارفع کو صدارتی تمغہءحسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ بل گیٹس نے ارفع کو صدر دفتر، امریکہ میں مدعو کیا اور ملاقات کی۔
لاہور شہر سے تعلق رکھنے والے اے لیول کے طالبِ علم محمد شہیر نیازی نے صرف 16 سال کی عمر میں برقی چھتوں یعنی ’الیکٹرک ہنی کوم‘ پر تحقیقاتی مضمون لکھ کر دورِ حاضر کے ماہرین طبعیات کو نہ صرف ورطہءحیرت میں ڈال دیا بلکہ مزید تحقیق کے لیے سائنس دانوں کو ایک نیا پلیٹ فارم بھی فراہم کر دیا۔ شہیر نیازی کی تحقیق پر مبنی مضمون رائل سوسائٹی اوپن سائنس جنرل میں شائع بھی ہوا۔
لاہور سے ہی تعلق رکھنے والی اے سی سی اے کی طالبہ زارا نعیم فنانس رپورٹنگ کے امتحان میں دنیا بھر (179 ممالک) میں سب سے زیادہ نمبر لے کر گلوبل انعام کی مستحق ٹھہریں.
جنوری 2024ء میں ایچی سن کالج لاہور کے اے لیول کے طالب علم سودیس شاہد نے 16 سال کی عمر میں ناسا اور رائس یونیورسٹی ہیوسٹن کے زیر اہتمام ہونے والے 22 ممالک کے 500 سے زیادہ طالب علموں میں سے گلوبل کوپرنیکس اولمپیاڈ کی سب سے مشکل کیٹگری 5 میں اول پوزیشن حاصل کر کے گولڈ میڈل جیتا۔
ایک سابقہ وفاقی وزیر راجہ شاہد ظفر کی بیٹی سبینہ ظفر کو امریکی ریاست کیلی فورنیا کے وسط مدتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے پر متفقہ طور پر وائس مئیر منتخب کیا گیا ہے۔ سبینہ ظفر پہلی مسلمان ایشیائی خاتون ہیں جو اِس عہدے پر فائز ہوئی ہیں۔
یہ چند مثالیں ہماری قوم کے اندر چھپی بے پناہ صلاحیتوں کو واضح کرتی ہیں مگر اشرافیہ کی سطحی سوچ اور درست سمت متعین نہ ہونے کے باعث یہ ٹیلنٹ گرہن زدہ ہو رہا ہے یا عالمِ یاس میں بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے۔
دوسری طرف نظر دوڑائیں! ملک فیروز خان نون کو ایک سال بھی حکومت نہ کرنے دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ناکردہ گناہوں کا اعتراف کروا کر اور گھر میں نظر بند کرکے نشانِ عبرت بنایا گیا۔ نواز شریف کے ساتھ بھی کیا کیا نہیں کیا گیا؟ مقامِ حیرت ہے کہ عبدالستار ایدھی طبعی موت مرنے میں کیسے کامیاب ہو گئے؟۔
٭....٭....٭