قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد حسبِ روایت حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی تقاریر کا دور ہوا ،اک طوفان تھا ، جو کہ اپوزیشن کے ارکان نے برپا کیا ،اگر بچے ایسا کرتے تو کلاس ٹیچر انہیں خاموش کراتے ہوئے یہ جملہ ضرور بولتا ” یہ کیا طوفانِ بدتمیزی ہے “ لیکن سپیکر قومی اسمبلی ان پڑھے لکھے باشعورممبران قومی اسمبلی کو جو کہ بے شعوری کا مظاہرہ کر رہے تھے ان کے نام بڑے احترام سے پکار پکار کر کہہ رہے تھے ”صاحب “ آپ خاموش رہیں ، سپیکر ڈیسک کے سامنے انتہائی غیر مہذب الفاظ کے استعمال پر مبنی احتجاج سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اس مخصوص جماعت کے پاس ملکی معیشت ، سلامتی ، خارجہ امور ، مہنگائی اور غربت کے خاتمے کے لئے کوئی ایجنڈا نہیں ہے ،ان کا اولین مقصد شخصیت پرستی اور اپنے قائد کی قصیدہ گوئی کے علاوہ کچھ نہیں۔
مہذب قومیں اپنے اقدار اور تہذیب کے دامن کو کسی سطح پر دغدار نہیں کرتیں ، حیف کہ قومی اسمبلی کی سطح پر سیاسی رہنما ﺅں کا غیر مہذب رویہ جگ ہنسائی اور نوجوان نسل کے کردار پر شدید اثر انداز ہوتا دکھائی دیتا ہے ، 2018 ءسے تواتر کے ساتھ اس غیرمہذب رویے کو دیکھا جارہا ہے لیکن اس عمل کو روکنے کے لئے اب قومی اسمبلی میں پوسٹرز، رہنماﺅں کی تصاویر کے بینرز،مخالفانہ تحریر پر مشتمل پلے کارڈ کے علاوہ غیر متعلقہ اشیاءکا ایوان میں لانے پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا ،سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر ِ صدارت ایک مشاورتی اجلاس ہوا جس میں قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں نا شائستہ زبان استعمال کرنے اور جارحانہ اشتعال انگیز طرز عمل کا مظاہرہ کرنے والے ارکان کے خلاف طے شدہ قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر کاروائی کرنے پر بھی غور کیا گیا ،تاکہ ایوان میں ہونے والی کاروائی اور قانون سازی کا عمل پر سکون اور مہذب ماحول میں مکمل کیا جاسکے۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان نے انتخابات میںآزاد حیثیت سے شمولیت اختیار کرنے کے بعد خیبر پختونخواہ میں اکژیت حاصل کی اور حکومت بھی بنا لی لیکن ملک کے دوسرے صوبوں میں انتخابات کو متنازع بنانے کے ہر حربے استعمال کئے وزیر اعظم کے الیکشن میں حصہ بھی لیا ، وزیر اعظم کا انتخاب ہارنے کے بعد منتخب وزیر اعظم ، سپیکر اورڈپٹی سپیکرکو غیر قانونی قرار دینا ان کا طفلانہ رویہ ظاہر کرتا ہے ، اگر یہ سارا عمل غیر قانونی تھا تو اس میں شمولیت کیوں اختیار کی ، اس عمل میں شامل ہونے کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ آپ نے الیکشن کے سارے عمل کو تسلیم کیا اور اس میں حصہ دار بنے ، امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے تو حتمی طور پر کہہ دیا ہے کہ ” جو ارکان ِ پارلیمنٹ اس ایوان میں آنیوالوں کو جعلی سمجھتے ہیں وہ اپنی رکنیت چھوڑ دیں “
حزب اختلاف سنی اتحاد کے قومی اسمبلی میں لیڈر عمر ایوب نے اپنی تقریر میںحسبِ وطیرہ الزامات لگائے اور اپنے پارٹی لیڈر کی قصیدہ گوئی کی جس پر اسمبلی میں کچھ آوازیں اٹھیں ان آوازوں کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ” ذرا چلائیں9mm کی چار گولیاں کسی کی ٹانگوں پر اوے اوے کرتے ہیںپتہ لگ جائے گاان کو “۔
عمر ایوب جو کہ فرزند ہیں گوہر ایوب کے اور پوتے ہیں جنرل ایوب خان کے ان کے اس بیان نے ماضی کے دردناک واقعات کی یاد کریدکر رکھ دی ،جنرل ایوب خان نے 1956 ءکے آئین کو معطل کر کے ملک میں مارشل لاءلگاکر پاکستانی قوم کو اپنی شخصیت کے گرد گھومتا ہوا آئین دیا جو کہ 1962 ءکاآئین کہلایا ، اس آئین کو مبصرین نے اس وقت کے لائل پور اور آج کے فیصل آباد کے گھنٹہ گھر سے تشبیہ دی ،جو ہر طرف سے ایک ہی شکل میں نظر آتا ہے ، دورِ ایوبی میں 5 ، جنوری 1965 ءمیںکراچی کے علاقے لیاقت آبادمیں سیاسی مخالفت کی بنیاد پر خون کی حولی کھیلی گئی تھی ، 13جنوری 1965 ءکو امریکی جریدے ” ٹائمز “ نے رپورٹ کیا کہ اس ہنگامہ آرائی کے دوران 33 افراد ہلاک ہوئے 300 سے زائد زخمی جبکہ تقریباً دو ہزار افراد بے گھر ہوئے ، ان واقعات کو برطانوی اخبار ” دی ٹائمز “ نے بھی رپورٹ کرتے ہوئے لکھا کہ اس فساد میں کئی مکانات کو بھی نذر آتش کیا گیا، بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی اور زیادہ تر ہلاکتیں ناظم آباد چورنگی سے لیاقت آباد ڈاک خانے کی طرف الطاف علی گوہر نامی سڑک پر ہوئیں ، ان میں متعدد واقعات شاہراہ پاکستان جو کہ پہلے ایس ایم توفیق روڈ کہلاتی تھی اس پر بھی ہوئے ۔
عالمی و قومی ذرائع ابلاغ ، دانشوروں ، معمر سیاست دانوں، عینی شاہدین اور تاریخ کی متعدد کتابیں اس فساد کا بڑا ذمہ دار جنرل ایوب خان کے فرزند گوہر ایوب کو قرار دیتے ہیں ،تاریخی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مشین گنوں سے چلائی گئی گولیاں پاکستان کے پہلے صدارتی انتخاب میں جنرل ایوب خان کی کامیابی کی خوشی میںبرسائی گئیں ، جس میں اصل مقابلہ جنرل ایوب خان اور بابائے قوم محمد علی جناح قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح کے درمیان تھا ، شہاب نامہ کے مطابق چونکہ صدارتی انتخابات میں ڈھاکہ اور کراچی نے بھاری اکثریت سے صدر ایوب خان کے خلاف ووٹ ڈالے تھے ، ڈھاکہ کے متعلق تو ایوب خان خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے ، لیکن کراچی میں ان کے فرزند دلپذیر نے اہلیانِ کراچی کی ” گو شمالی “ کا بیڑا اٹھایا ،( گوشمالی یعنی کان پکڑوانے یا کان مڑوڑنے کی سزا، سرزش ) ،چنانچہ پانچ جنوری کوجشن فتح کے نام پر جلوس نکالا جس کی قیادت گوہر ایوب کے ہاتھ میں تھی ، لیاقت آباد اور چند دوسرے علاقوں میں جلوس اور شہریوں کے درمیان کچھ جھڑپیں ہوئیں اس کا بدلہ چکانے کے لئے رات کے اندھیرے میں ان بستیوں پر شدید حملے کئے گئے، آگ لگائی اور کافی جانی و مالی نقصان پہچایا گیا ، اس نقصان کا کسی کو اندازہ نہیں “۔
اتنی نہ بڑھا پا کئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
٭....٭....٭