اتوار‘ 28 شعبان المعظم 1445ھ ‘ 10 مارچ 2024ئ


دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ویمن ڈے جوش و خروش سے منایا گیا۔
پہلے بڑے مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ دن وہ لوگ بھی مناتے ہیں جو اپنی جائیدادوں سے، وراثت سے خود اپنی بہنوں، بیٹیوں کو حصہ نہیں دیتے جو ان کا شرعی حق ہوتا ہے۔ وہ خواتین بھی یہ دن منانے میں پیش پیش ہوتی ہیں جو خود گھریلو ملازم خواتین کو فیکٹری ورکرز خواتین کو کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنے والی خواتین کو ان کا حق نہیں دیتیں۔ بہرحال مناتے رہیں دن۔ یہ ان کا حق ہے۔ اصل میں وہ خواتین جو یہ دن منانے کی اصل حقدار ہیں جن کے حقوق کے لیے 1908ءمیں ملازمت پیشہ خواتین کی تنخواہ ان کے اوقات کار اور ووٹ کا حق دینے کے لیے امریکی سوشلسٹ پارٹی نے اسے قومی دن منانے کا اعلان کیا اور ایک سال بعد ہی کمیونسٹ پارٹی کی کلاراز ٹیکن نامی خاتون نے اسے عالمی دن کا درجہ دینے کی سفارش کی جو کوپن ہیگن کانفرنس میں 1910ءمیں منظور ہوئی۔ یوں اب خواتین کا دن ہر سال 8 مارچ کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن میں اب یہ بات بھی شامل ہے کہ خواتین مارچ کرتی ہیں۔ یورپ کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی یہ کام شروع ہوا مگر ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔ یہاں مزدور، محنت کش اور غریب خواتین کی محروم طبقہ کی خواتین کی بجائے مراعات یافتہ طبقے کی خواتین بطور شغل میلے کے یہ دن مناتی ہیں جس میں نعرے بازی تو خوب ہوتی ہے تقریریں بھی چلتی ہیں مگر اصل مسئلوں کی بات کوئی نہیں کرتا۔ بعض زیادہ ہی آزاد خیال لوگ ان مظاہروں میں ایسے نعرے لگاتے پلے کارڈ بھی اٹھاتے ہیں جو ہمارے معاشرے ماحول اور مذہبی اقدار کے قطعی منافی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بدمزگی پیدا ہوتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو وویمن ڈے اس کی اصل روح کے مطابق محروم طبقے کی خواتین ملازمت پیشہ، ورکر اور محنت کش خواتین کو وراثت سے محروم عورتوں کو ان کا حق دلانے کیلئے ان کی معاشی حالت بہتر بنانے کے عزم کے ساتھ منایا جائے۔ پھر یقیناً کسی کو اعتراض نہیں ہو گا۔ پنجاب میں اس دن کے حوالے سے وزیر اعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر خصوصی پروگرام کئے گئے اور شہر کو پرعزم باہمت خواتین کے پوسٹروں سے سجا کر اچھا پیغام دیا گیا۔ 
٭٭٭٭٭
صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں ووٹ نہیں دینگے: فضل الرحمن۔
اب گنجی کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی۔ یہ بات جے یو آئی والے بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی طرف سے صدارتی الیکشن کے بائیکاٹ سے کسی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس طرح جے یو آئی البتہ پرانے دوستوں اور اتحادیوں سے دور ہو جائے گی۔ مولانا فضل الرحمن اپنے جلسوں میں 
فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں 
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں 
والا شعر تو لہک لہک کر سناتے ہیں اور سب کو متحد رہنے کی تلقین کرتے ہیں مگر اب الیکشن نتائج حسب منشا نہ آنے کی وجہ سے سب سے علیحدہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے ہیں۔ اس علیحدگی کے عمل میں حیرت کی بات ہے ان کو پی ٹی آئی کی رفاقت میسر ہے جو پہلے جے یو آئی اور مولانا کی سخت ناقد جماعت رہی ہے۔ ان کے کپتان مولانا کو کسی بھی جلسے میں نہیں بخشتے تھے۔ مگر آج مولانا نے ان کی ساری خطائیں بخش دی ہیں لیکن جو بھی ہو اب صدارتی الیکشن میں ان کے یعنی مولانا کے سابق اتحادی اور دوست آصف علی زرداری کی کامیابی میں اب کوئی دو رائے نہیں کیونکہ مسلم لیگ نون کے ساتھ معاہدے کے تحت وہ اکثریتی ووٹوں سے صدر بن چکے ہیں۔ جے یو آئی کے ووٹ تو محمود خان اچکزئی کو بھی نہ ملے جو پی ٹی آئی المعروف سنی اتحاد کے متفقہ امیدوار تھے اور انہوں نے مولانا سے درخواست بھی کی تھی کہ انہیں ووٹ دیا جائے۔ اب جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا۔ عارف علوی قصر صدارت سے رخصت ہو کر شاید اپنے گھر جا کر اپنا ڈینٹل کلینک سنبھالیں گے یا پی ٹی آئی کے اب جزوقتی نہیں کل وقتی رہنما کے طور پر کام کرتے رہیں۔ اس میں انہیں کوئی دقت بھی نہیں ہو گی وہ پہلے بھی یہی کام اسلام آباد میں کرتے رہے ہاں البتہ اب قصر صدارت کا محفوظ قلعہ میسر نہ ہو گا۔ اس لیے احتیاط سے کام کرنا ہو گا۔
٭٭٭٭٭
خیبر پی کے میں صحت کارڈ بحال ،حکومت نے 5 ارب روپے جاری کر دئیے۔
اچھا کام کوئی بھی کرے اس کی تعریف کی جانی چاہیے۔ صحت کارڈ میں غریبوں کو بہرحال فائدہ تھا۔ گرچہ اس میں ان سے زیادہ فائدہ نجی ہسپتالوں نے اٹھایا اور دونوں ہاتھوں سے غریبوں یعنی صحت کارڈ رکھنے والوں کا استحصال کیا۔ اپنا کمیشن کاٹ کر 2 لاکھ کے علاج پر 5 لاکھ وصول کئے۔ یوں ان کی چاندی ہو گئی اور حکومتی خزانے کا خطیر سرمایہ انہوں نے لوٹ لیا۔ اب خدا کرے خیبر پی کے کے نئے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور ایسی چھوٹی موٹی خامیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوں اور صحت کارڈ کو اس کے اصل روح کے مطابق کم از کم اپنے صوبے میں بحال کر کے نیک نامی کمائیں۔ اگر یہی کام باقی صوبوں میں ہو جائے تو سونے پر سہاگہ ہو گا اور لاکھوں افراد کا بھلا ہو گا، انہیں میڈیکل سولتیں ملیں گی۔ کسی اچھے کام کے غلط استعمال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کو ترک کیا جائے بلکہ اسے بہتر بنا کر عوام کی سہولت کے لیے آسان بنایا جائے۔ اب پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے بھی صحت کارڈ کے حوالے سے خوشخبری دی ہے کہ صوبہ پنجاب میں بھی صحت کارڈ نئے عزم کے ساتھ جاری ہوں گے تاکہ غریبوں کو مہنگے علاج میں مدد مل سکے۔ یہ اچھی بات ہے۔ غریبوں کے تعلیم، صحت اور روزگار جیسے مسائل جتنی جلد حل ہوں اتنا ہی بہتر ہے۔ اس بار جو بھی عوام کا اعتماد پھر جیتے گا وہ آئندہ بھی ملک کی باگ ڈور سنبھالنے میں کامیاب ہو گا کیونکہ اب لوگ کافی سیانے ہو چکے ہیں اور اپنا ب±را بھلا خوب جانتے ہیں۔ صحت کارڈ کی طرح لوگوں کے لیئے بچوں کی فری تعلیم کے کارڈ اور بے روزگاری الاﺅنس کی بھی کوئی راہ نکلے تو کیا بات ہے۔ گرچہ یہ سب کچھ فی الحال خواب و خیال ہے۔ تاہم اگر 300 یونٹ تک بجلی فری ہو گئی تو جان لیں کہ یہ خواب بھی ضرور پورے ہوں گے ورنہ بقول غالب 
”دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے“۔
٭٭٭٭٭
سابق وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو 60 لاکھ واجب الادا کرایہ جمع کرانے کا نوٹس۔
 اب اس تازہ خبر کو سن کر اور پڑھ کر لوگ کیا سوچتے ہوں گے کہ ہمارے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہمارے نگران وزیر اعظم نے بہت اچھے کام بھی کئے مگر یہ کیا کہ بطور سینیٹر وہ جس بنگلے میں رہے اس کا کرایہ گزشتہ کئی سالوں سے ادا نہیں کیا اور اب یہ رقم 60 لاکھ روپے تک جا پہنچی ہے۔ اتنی رقم سے تو متوسط طبقے والا مناسب گھر خرید سکتا ہے۔ کیا بطور سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ اگر ملتی تھی تو وہ کرایہ کیوں نہیں دیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادنیٰ ہو اعلیٰ عام ہو یا خاص ہم سب جہاں جہاں داﺅ لگے کام دکھاتے ہیں، یعنی ”وچوں وچوں کھائی جاﺅ اتوں رولا پائی جاﺅ“ خیر اب متعلقہ ادارے نے انوار الحق کاکڑ کو نوٹس بھیج کر انہیں یاد دلایا ہے کہ محترم اب آپ نگران وزیر اعظم بھی نہیں رہے اس لیے منسٹرز انکلیو اسلام آباد کے جس بنگلے میں آپ قیام فرما ہیں مہربانی فرما کر اس کا واجب الادا کرایہ جلد از جلد ادا فرمائیں۔ امید ہے اپنی نیک نامی کی وجہ سے کاکڑ جی یہ کام پہلی فرصت میں انجام دے کر لوگوں سے داد سمیٹیں گے۔ ویسے تو مالکان اپنے کرایہ دار کو ایک سے دوسرا ماہ ہو جائے تو مہلت نہیں دیتے۔ مکان خالی کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ غریبوں کو تو سامان اٹھا کر سڑک پر پھینکنے کے کرب سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ امید ہے انوار الحق کاکڑ کو اس قسم کے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا وہ قدرے متمول شخص ہیں اور آسانی سے نہ سہی قسطوں میں یہ کرایہ ادا کر سکتے ہیں۔ 5 سال کا کرایہ ہے کوئی ایک دو ماہ کا نہیں وزارت ہاﺅسنگ نے بھی جہاں 5 سال انتظار کیا کچھ اور کر لے گی۔ سوچنے کی بات ہے وزارت ہاﺅسنگ والے اتنا انتظار کیوں کرتے ہیں بروقت کرایہ کیوں نہیں لیتے۔بعد میں بیٹھ کر ٹسوے بہاتے ہیں۔ ایسے رویے کی کوئی بھی حمایت نہیں کرے گا۔۔۔ 
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن