نے کی ۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ انھوں نے آئین کے تحت چلنا ہے بھٹو کیس کے فیصلےکوجج اورعوام تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی اس کیس کا عدالتوں میں حوالہ دیا جاتا ہے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آئین میں دیئے گئے اختیار کے تحت ہم اس کیس پر نظرثانی کر سکتے ہیں یا نہیں۔ بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ بھٹو کیس میں شفاف ٹرائل نہیں ہوا ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے اگر ہم نے پارلیمنٹ کی بالا دستی کو برقرار رکھنا ہے تو پھر آئین پرعمل کرنا ہوگا ۔
وفاق کے وکیل بابراعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کتنی بھی قانون سازی کر لے عوام کی نظریں آپ پر ہیں۔ آئین بنانے والوں نے پیچیدگیوں کو مد نظر رکھتے ہوئےصدارتی ریفرنس کو دستور کا حصہ بنایا ۔ آئین میں سو موٹو کا اختیار موجود نہیں لیکن عدالت یہ اختیار استعمال کرتی ہے ۔ عدالت نے بابراعوان سے استفسار کیا کہ صدارتی ریفرنس میں لفظ دوبارہ جائزہ لینے سے کیا مراد ہے ۔ دیگر ممالک میں قانون سازی کے ذریعے ایسے کیسز دوبارہ کھولے گئے ۔ اس کیس کا دوبارہ جائزہ لیا تو سپریم کورٹ کے فیصلے کی حتمی حیثیت کے قانون کا کیا ہوگا۔ عدالت نے بابر اعوان کو ہدایت کی کہ وہ بدھ تک اپنے دلائل مکمل کر لیں