درگزر کرنے والے کیلئے اللہ کے ہاں اجرِ عظےم ہےمہذب معاشرے اورتہذےب ےافتہ اقوام مےں ہمےشہ اےشوز پر سےاست ہوتی ہے۔ ذاتےات کو نشانہ نہےں بناےاجاتا۔ قارئےن! جےسا کہ آپ جانتے ہےں کہ عام طورپر تہذےب ےافتہ اور مہذب ہونے کے حوالے سے ہمارے دانشور ہمےں جن اقوام کی مثال دےتے رہتے ہےںوہ امرےکی اور ےورپی ممالک ہےں۔ ہم ےہاں اس بات کی وضاحت کرتے چلےں کہ تہذےب کے معنی پر وہی قوم پوری اُترتی ہے جو صرف اپنے ملک کیلئے نہےں بلکہ ہمساےہ ممالک اور اسکے ساتھ ساتھ ساری دنےا کیلئے تہذےب ےافتہ ہو۔ اس وضاحت کے بعد آپ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہےں کہ دنےا مےں وہ کون سی اقوام ہےں جو تہذےب ےافتہ ہونے کی تعرےف پر پورا اترتی ہےں۔ اور ےہ بھی کہ اس معاملے مےں ہمارے اہلِ دانش کہاں کھڑے بے وقت کی راگنی الاپتے رہتے ہےں۔ ہماری بےشتر سےاسی پارٹےاں اور سےاست سے وابستہ لوگ تہذےب کے سفر مےں ابھی بہت پےچھے ہےں بلکہ اگرےہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ان مےں سے بےشتر نے تو ابھی اس سفر کا آغاز بھی نہےں کےاہے۔ شاےد ابھی انھےں مزےد کچھ وقت لگے گا مہذب اطوار کو اپنانے مےں۔ البتہ ماےوسی کے اس منظرنامے مےں ن لےگ نے قد نکالا ہے اور وہ موجودہ الےکشن مےں اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑی نظرآرہی ہے۔ نئے لوگوں سے تو نہےں ہاں مگر پرانی پارٹےوں سے ےہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ مہذےب ہونے کا ثبوت دےتےں۔ پرانی پارٹےوں مےں اےک نام پےپلزپارٹی کا بھی گناجاتا ہے۔ اسکے پاس مگر قےادت نہےں۔ اور ہمارے ہاں پارٹےاں ابھی اتنی مضبوط اور فعال نہےں ہوئےں کہ قےادت کے بغےر اپنا وجود برقرار رکھ سکےں۔ ےا عوامی جذبات کا احساس کر سکےں۔ ےاد رہے کہ جوڑتوڑ کرنیوالے ڈےلر ہوتے ہےں لےڈر نہےں بن سکتے اور جس پارٹی کے عہدےدار قائدانہ صلاحےت سے محروم ہو ں وہ پارٹی اےک اےسے بے ہنگم رےوڑ کی طرح ہوتی ہےں جس کو ہانکنے والا کوئی نہےں ہوتا۔ اےسی پارٹی پر عموماََ بے چہرہ لوگ قابض ہوتے چلے جاتے ہےں۔ ذاتی پہچان اور شناخت سے محروم لوگ بے چہرہ ہواکرتے ہےں۔ پےپلزپارٹی نے جب اےک اےسے شخص کو جو عوام مےں راجہ رےنٹل کے نام سے معروف تھا اور اسکے خلاف کےس عدالتوں مےں زےرِ سماعت تھے اس کو وزےرِ اعظم بنا کر جس بے رحمی اور بے دردی سے عوامی جذبات کا خون بہاےا ، سےاسی تارےخ مےںاسکی مثال نہےں ملتی۔ اربوں روپے اےک اےسی سکےم مےں جھونک دےاگےا جس سے عوام مےں ےہ شعور بےدار کےا جاسکے کہ وہ واقعی اےک بھکاری قوم ہے۔ شطرنج کے کھلاڑی پانچ سال مےں توانائی کے بحران کا کوئی قابلِ عمل حل تو نکال نہےں سکے جبکہ پورے ملک کی معیشت کا پہےہ انھوں نے جام کرکے رکھ دےا۔ اور اب ےہ سارے کھلاڑی اکٹھے ہو کر ن لےگ کیخلاف بے ہودہ قسم کی اشتہاری مہم چلا رہے ہےں جو سراسر ذاتی نوعےت کی ہے جبکہ ن لےگ کی قےادت نے جواباََ درگزر کاروےہ اپنارکھا ہے۔ اےسی پارٹی جس کے پاس عملی کارکردگی کے نام پر بتانے کیلئے اےک بھی کام نہ ہو وہ ہمےشہ دوسروں پر ذاتی تنقےد کرکے خود کو نماےاں کرنے مےں مصروف رہتی ہے۔ ان کا ےہ عمل بالکل اس طرح کا ہوتا ہے جےسے گلی محلوں کے آوارہ لڑکے جو دن رات کسی گلی کی نکڑ ےا چوراہے پر کھڑے رہتے ہےں اور آتے جاتے لوگوں پر فقرے کستے رہتے ہےں کےونکہ ان کا اپنا کوئی عمل ےا کردار تو ہوتا نہےں اس لےے وہ دوسروں پر فقرے بازی جےسے فضول شغل سے ہی ٹائم پاس کرنے مےں لگے رہتے ہےں۔ غور کا مقام ہے کہ کےا کبھی قائداعظم اور گاندھی نے اےک دوسرے کو ذاتی تنقےد کا نشانہ بناےاتھا۔ دراصل وہ صحےح معنوں مےں مہذب لےڈر تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری موجود ہ قےادت اگر مہذب ہوگی تو وہ ملک کے اندرونی اور بےرونی مسائل کو تہذےب اور بردباری سے حل کرسکے گی‘ورنہ پھر اےک دوسرے پر کےچڑ اُچھالنے مےں لگے رہےں گے اور ملک وقوم کی بہتری کے بارے سوچنے اور عملی اقدام کرنے کی فرصت ہی نہےں مل سکے گی۔ اسکی صرف اےک مثال آپ کی خدمت مےںپےش کرتے ہےںہمارے اےک بہت معاروف کالم نگار ہےں جو صرف اس بنا پر ن لےگ سے شدےد ناراض رہتے ہےں کہ انکے دورِ حکومت مےں رائےونڈ کی اےک سڑک مکمل نہےں کروا سکے۔ اس نامکمل سڑک کا نقشہ وہ کچھ اس طرح باندھتے ہےں جےسے کوئی مغنی اپنی پرسوز آواز سے سماع باندھتا ہے۔ کالم نگار کو مذکورہ سڑک کے گڑوں مےں جو اندھےرے نظرآتے ہےں وہ اس اندھےرے سے بھی کہےں زےادہ ہےں جنھوں نے سارے ملک کو اپنی لپےٹ مےں لے رکھا ہے۔ موصوف کو رائےونڈ کی اس نامکمل سڑک پر چنگ چی رکشے بھی چلتے دکھائی دےتے ہےں اور بڑے بڑے کنٹےنرز بھی رواں دواں نظر آتے ہےں۔ موصوف اپنے تصوراتی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہےں کہ خدانخواستہ اگر کسی دن ےا رات مےں کوئی کنٹےنرز اُلٹ گےا تو کتنے معصوم اور قےمتی جانوں کا نقصان ہوسکتا ہے۔ ذاتی نوعےت کی رنجش کیساتھ ساتھ ہمےں ےہ مفروضہ بھی سناےا جارہا ہے کہ تحرےکِ انصاف اور ن لےگ کے علاوہ پےپلزپارٹی جو پورے پانچ سال مےں صرف اےک مسئلے ےعنی توانائی کے بحران کا کوئی عملی حل نہےں نکال سکی وہ بھی اپنا وجود رکھتی ہے اور الےکشن کے بعد کسی غےر متوقع سونامی کا باعث بن سکتی ہے۔ لہٰذا مشتری ہوشےار باش! کہ سندھ کے ہارےوں کو بھٹو کے خون کی غلامی سے آزاد ہونے مےں ابھی بڑا وقت لگے گا“۔ قارئےن! رائے عامہ کے تجزےے کبھی حتمی نہےں ہوتے اکثر نتائج غےر متوقع بھی ہوا کرتے ہےں ۔ حال ہی مےں فوج نے الےکشن کیلئے جو جامع سےکےورٹی پلان تشکےل دےا ہے جو صرف اےک صوبے کیلئے نہےں بلکہ تمام صوبوں کیلئے ہوناچاہےے۔ بہرحال اس سکےورٹی پلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے اگر انتخابات پُرامن طور پر تکمےل کو پہنچتے ہےں تو 11 مئی کا دن بھٹو کے خون کی غلامی سے آزادی کا دن ثابت ہوگا۔ منگل کی شام 7بجے جب عمران جلسہ گاہ مےں بنائے گئے سٹےج پر لفٹر کی ذرےعے جاتے ہوئے گرپڑے تو بہت سے لوگوں کے ذہنوں مےں اےک ہی مصرعہ گونجا ہوگا ”گرتے ہےں شہسوار مےدانِ جنگ مےں“ عمران کو پےش آنیوالے اس حادثے کے باعث نوازشرےف نے اپنی انتخابی سرگرمےاں منسوخ کردےں اور تحرےک انصاف کیخلاف چلائی جانے والی مےڈےا مہم کو روک دےنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے خوش آئند اور اچھی سےاسی رواےت کا ثبوت دےا۔ ےاد رہے کہ بے نظےر بھٹو کے زخمی ہونے کے بعد نوازشرےف ہی سب سے پہلے ہسپتال پہنچے تھے۔ نوازشرےف نے لےاقت باغ مےں جلسہ کے دوران عمران کی صحتےابی کیلئے دعا بھی کرائی۔ مہم کے کسی جلسے مےں وہ سٹےج پر موجود کرسی پر اس طرح بےٹھے جےسے گر پڑے ہوں ۔ ےہ بھی معلوم ہوا ہے انکے جلسوں کی انتظامےہ پےنے کا پانی تک تو ساتھ رکھتی نہےں۔ اےسی نااہل انتظامےہ سے ےہ توقع کےسے کی جاسکتی تھی کہ وہ لفٹر کی حالتِ زار کو چےک کرتے جس کی وجہ سے ےہ حادثہ پےش آےا۔ بہرحال کسی بھی حادثے مےں قدرت کی جانب سے ہمارے لےے کو ئی سبق پوشےدہ ہوا کرتا ہے اگر ہم سےکھنا چاہےں تو۔ حادثہ کہےں بھی اور کسی بھی وقت پےش آسکتا ہے۔ ہمےں اس حادثے سے سبق سےکھنا ہوگا اور انتخابی جلسوں مےں اےمرجنسی نوعےت کی مدد پہنچانے کا پہلے سے انتظام کرکے رکھنا ہوگا۔ ہم عمران خان کی صحت کیلئے دعا گو ہےں۔