کل الیکشن 2013ءمیں پاکستانی قوم ایک بار پھر ”جمہوریت“ کی تلاش میں جارہی ہے۔الیکشن کمیشن کی اب تک کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ الیکشن کرانے کی ”کارکردگی“ انتہائی مایوس کن ہے۔ وہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کسی بھی پارٹی سے کرانے میں کامیاب نہیں ہوا۔سیاسی پارٹیاں جذباتی تقاریر سے سادہ عوام کو چکر دینے میں کس حد تک کامیاب ہوئی ہیں اس کا فیصلہ تو 11مئی کو ہی ہو گا البتہ انکی تقاریر سے عوام لطف اندوز ضرور ہوئے ہیں۔عمران خان کے زخمی ہونے سے قبل انتخابی اور الزاماتی میدان بڑا گرم تھا۔ عمران خاں صاحب کو ”شیر فوبیا“ اس حد تک ہو گیا تھا کہ ایک تقریر میں موصوف نے کہا ”کہ اپنے والدین کو جاکر گھروں میں کہہ دو کہ مہر صرف شیر پر ہی لگانا“ پیچھے سے کسی نے خاں صاحب کو بتایا کہ جناب یہ کیا کہہ رہے ہیں پھر ماتھے پر ہاتھ رکھ کر خاں صاحب نے کہا او۔سوری “ اس طرح ایک جلسے میں کہنے لگے کہ 11مئی کو ہم شیر کے گوشت کے کباب بنا کر کھائیں گے“ جناب کی طرف سے ”سجدہ“ بھی ٹی وی میں دکھایا جا رہا ہے۔ دعا کرتے بھی دکھایا گیا ہے لیکن موصوف کو شاید علم ہی نہیں کہ شیر تو حرام جانور ہے اسکے کباب اسلام میں تو بنانا حرام ہیں“ بہر حال اسی طرح شہباز شریف صاحب کو بھی ”عمرا ن فوبیا“ اس حد تک ہوا تھا کہ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے بارے کئی ایک تاریخیں دے ڈالیں بلکہ ایک تقریر میں تو شہباز شریف صاحب نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہم انشااللہ دوسال میں ”بجلی “ کو ہی ختم کر دینگے۔
یہ تو وہی بات ہوئی ناں کہ جس طرح موجودہ پیپلزپارٹی غربت کے خاتمے کی بجائے غریب کو ختم کرنے کے ہی درپے ہے۔ بہر حال تمام سیاسی پارٹیوں نے میڈیا پر الیکشن مہم کے سلسلے میں جس قدر اشتہار بازی کی اسکی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ اشتہار بازی میں بھی کوئی مثبت پہلو یا اپنا کوئی”کارنامہ“ کسی نے نہیں دکھایا۔
تقریباً سب سیاسی پارٹیوں نے کالا باغ ڈیم کی طرف بھی چپ سادھ رکھی ہے۔ پیپلزپارٹی ایم کیو ایم اور اے این پی تو ویسے بھی ہندوستان کو ”موسٹ فیورٹ“ قرار دے رہی ہیں۔ میاں نوازشریف بھی کشمیر کی بجائے ”تجارت“ کو فوقیت دیتے ہیں۔ ”نیا پاکستان“ بنانے کے دعویدار سابق کپتان خاں صاحب بھی بھارت سے ”تجارت“ کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ قائداعظم ؒ کا پاکستان ابھی تک کشمیر کے بغیر نامکمل ہے۔ اگر وہ اپنے ”نئے پاکستان “ میں کشمیر کو بھی شامل کر لیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ امریکہ کی طرف سے ڈرون گرانے کے ”دعوے“ کرنےوالے کشمیر کے حصول کی بات کرنے سے کیوں کتراتے ہیں انہیں شاید یہ علم ہے کہ یہ کسی کھلاڑی، مداری، زرداری کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کیلئے ایمانی قوت اور ہمت کی ضرورت ہے۔ بہر حال الیکشن مہم میں کسی بھی پارٹی کی طرف سے کوئی قابل ذکر بات سامنے نہیں آئی ۔
”باتوں“ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں سب نے پوری کو شش کی ہے۔ آمریت کے بعد جمہوریت اور ”جمہوریت“ کے بعد اب پھر ”جمہوریت“ بہر حال ایک نیک شگون ہے۔ جمہوریت بری نہیں ہے جمہوریت کے نام پر چند ”لٹیرے“ جو اپنی بے پناہ دولت کی بنا پر بار بار عوام کے حقوق غصب کرتے ہیں۔ قیام پاکستان کے مقاصد سے رو گردانی کرتے ہیں۔ صرف اپنی جائیدادوں میں اضافہ کیلئے ”جمہوری“© نمائندوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ خیال تھا کہ اس دفعہ ان سے جان چھوٹ جائے گی اور کچھ بہتری آئیگی مگر الیکشن کمیشن نے محض ”ڈرامے بازی“ کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔ پرسوں 11مئی ہے۔ الیکشن میں ضرور حصہ لیجئے ووٹ قومی امانت ہے اس کا استعمال ضرور کیجئے ۔ ووٹ صرف اس کو دیجیئے جو کہ قائداعظم اور اقبالؒ کی تعلیمات و اصولوں کی زبانی نہیں عملی پیروی کرتا ہو اور وہ بانیان پاکستان کے پاکستان کو انکے ارشادات کیمطابق ایک اسلامی فلاحی جمہوری مملکت بنانے کا خواہاں ہو ۔