انتخابی مہم آخری مرحلے میں ہے اور مجھے خوشی ہے کہ الیکشن کمشن غیرجانبدار اور مضبوط ہے اور الیکشن روائتی انداز سے ہو رہا ہے۔ بڑی بڑی پارٹیاں الیکشن مےں کود پڑی ہےں۔ 66برسوں مےں ہم نے پاکستان کو کےا دیا یہ اےک سوالےہ نشان ہے۔ ان برسوں مےں بےوروکرےسی، جرنےل اور جاگےردار نے اقتدار کو اپنی گرفت میں رکھا اور ےہ ببانگ دہل ےہ کہتے رہے کہ ےہ تو عوام کی حکمرانی ہے۔ دراصل ےہ دستور اور قانون جو اےک نظام کے تحت چلتے ہےں اگر وہ نظام ہی نیست و نابود ہو جائے تو پھر بےوروکرےسی کی حکمرانی رہتی ہے اور سےاست مےں اےک جمود آ جاتا ہے۔ جسکی وجہ سے پاکستان مےں غیر ملکی مداخلت غےرمعمولی حد تک بڑھی اور پاکستان بدترےن تشددکا شکار ہوا ۔اقتصادی مسائل دگرگوں ہو گئے۔ الحمداللہ الیکشن ہو رہے ہےں بڑی بڑی پارٹےوں کے راہنما دنگل مےں اتر چکے ہےں یہ اس دور کا اہم ترےن الیکشن ہے اور دےکھنا ےہ ہے کہ عوام کن پارٹےوں کو اقتدار کے قابل سمجھتے ہےں ہر پارٹی کا راہنما بڑے بڑے دعوے کے ساتھ مےدان مےں آےا ہے اور ان سب پارٹےوں سے پر ے اسٹیبلشمنٹ بڑے ہی دلچسپی سے ےہ انتخابی دنگل دےکھ رہی ہے اگر کسی کے کانوں پر جُوں تک نہےں رےنگتی تو بےوروکرےسی ہے۔ 66 برسوں مےں بےوروکرےسی ہر دور مےں حکمران پارٹی پر اپنی پالےسےاں ٹھونستی رہی۔ پاکستان جو قراداد مقاصد کے تحت اےک حقےقی اسلامی اور جمہوری رےاست کا تصور تھا مگربعد ازاں سےاسی وڈےروں اور جاگےرداروں نے سےاست کو اپنی گرفت مےں لے لیا اور آج بھی اگر آپ امےدواران کا جائزہ لےں تو وہی پرانے چہرے جن سے عوام بےزارہےں۔ الیکشن لڑ رہے ہیں موروثی سےاست اپنے عروج پر ہے ۔ اےک پارٹی نے باپ کو ٹکٹ دیا تو دوسری پارٹی نے بےٹے کو دیا ۔ اےک طرف بہنوئی دوسری طر ف سالا۔ اےک طرف ماموں دوسری طرف بھانجا ہے۔ کےا انہےں کوئی پڑھا لکھا سلجھا دےانتدار باکردار شخص نظر نہےں آےا؟
ہاں مےں اپنے ہمساےہ ملک کی مثال دے سکتی ہوں۔ اگرچہ وہاں بھی اقربا پرستی ہے مگر انہوں نے برٹش دور کا لیگل اور پولیٹیکل نظام برقرار رکھا ہوا ہے۔ وہا ں پر ہر Segment of Societyکی نمائندگی ہے ہمارے ہاں اسے overthrowکر دیا گےا۔ انڈےاکی ماےاوتی چےف سیکرٹری اچھوت کلاس سے ہے ۔اُس سے پہلے اےس اےم چوّن بھی اچھوت کلاس سے تھا اور سپےکر آف اسمبلی تھا اناّہزارہ بس ڈرائےور ہے اور لوک سبھامیں ہر مکتبہءفکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی نمائندگی ہے ۔ےہاں وڈیرہ کلچر ہے شہید بھٹو نے اس سسٹم کی نفی کرنے کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔ مزدور کسان ، ہاری کو یہ بتایا کہ وہ طاقت کا سرچشمہ ہے۔ مگر بھٹو شہید کی Ideologyکو بھی Landord قوتےں ہائی جیک کر گئیں۔ مےںصرف ان بڑی بڑی پارٹےوں سے پوچھتی ہوں کہ ٹکٹےں تو پھر آ پ نے انہی لوگوں کو دےں۔ پرانے چہرے جن سے عوام تنگ ہےں۔ کتنے نئے چہرے آپ لائے؟ اسمبلےوں مےں تو بڑے بڑے لےڈروں کے بےٹے ان کی بہنےں، بہنوئی خاندان کا خاندان بےٹھا ہے پھر کےسی جمہورےت ہے یہ تو موروثی سلسلہ ہے۔کےا کسی پارٹی نے ٹکٹ دےتے ہوئے پارلےمنٹرےن سے پوچھا کہ کم از کم پانچ سالوں مےں پارلےمنٹ مےں وہ دو کا م اےسے بتا دےں جو اُنہےں آئندہ ٹکٹ کا اہل بنائےں ۔کم از کم وہ ےہ تو بتا دےں کہ وہ دو کا م اُنہوں نے عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کئے ہےں ےا پھر عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے قانون سازی کی ہے۔کےا اُنکا دوبارہ پارلےمنٹ مےں آنا المےہ نہےں؟
کےا کسی پارٹی نے ہر طبقہ فکر یعنی مزدور، ٹےکنوکرےٹ، سپےشل افراد ، کسان مزدور اور جلتی ہوئی دھوپ مےں بچوں سمےت کھیتوں میںکام کرنے والی عورت کی نمائندگی رکھی؟ افسوس تو یہ ہے کہ ریزروز سیٹوں پر بڑے بڑے لیڈوں کی بیٹیاں، پوتیاں، بہویں، بہنیں سلیکٹ ہوتی ہیں۔ پھر غریب اور مفلس خواتین کی آواز ان تک کیسے پہنچے گی۔ ایک Voiceless اسمبلی کیا حقیقی جمہوریت ہے؟
پاکستان کی تارےخ مےں بےوروکرےسی لازوال رہی ہے ۔کوئی حکومت آئے راج بےوروکرےسی کا ہی ہوتا ہے۔ نہ انہےں کوئی ہٹا سکتا نہ پالےسی کو چےلنج کر سکتا ہے ۔بجٹ وہی بناتے ہیں اپنی مرضی کے مطابق بناتے ہےں پارلےمانی نمائندوں کو تو معلوم ہی نہےں ہوتا کہ بجٹ کےا ہے ہر چےز پر اُتار چڑھاﺅ وہی کرتے ہیں پھر اےک Finance Minister بجٹ پےش کرتا ہے اور ڈھےروں ڈھےر کتابےں پارلےمنٹرےن کو فراہم کر دی جاتی ہےں اور جب حکومت بجٹ پےش کرتی ہے تو اپوزےشن کٹوتی کرتی ہے۔ پھر وہ بجٹ Ayesاو ر Noes(yes or no)کا شکار ہوتا ہے اور بجٹ پاس ہو جاتا ہے۔ Ayesکہنے والوں کی majority میں سوائے چند جانتے ہی نہےں کہ ےہ بجٹ کےا ہوتا ہے۔ یہ جمہوری اقدار کے مزے ہےں کہ عوام بلبلا اُٹھتے ہےں۔ پٹرولےم نرخوں مےں اضافے ٹےکس میں اضافے بجلی میں اضافے اور Indirect Tax جو پانی کی بوتل پر بھی لگتا ہے اور consumer سے وصول کےا جاتا ہے۔ اےک ٹےکس عوام دےتے ہےںاور دوسرے indirect taxاےک خاموش تلوار کی طرح عوام پر چلتے ہیں ۔ لاءاےنڈ آرڈر کی بگڑی ہوئی صورتِ حال پر کےا غور ہوا ۔ ڈرون attackمعصوم لوگوں کا شکار کرتے رہے اور طالبان کی کارروائیوںمیں ذرہ بھر کمی نہ آئی۔ پاکستان terrorismکی بدولت foreign investorسے محروم ہوتا رہا بلکہ اس کا شکار بے گناہ معصوم لوگوں کی زندگی کا ہوا جو اندھےروں میں مارے گئے۔
کسی ملک کی ترقی کے لئے اور تجارتی تعلقات بڑھانے کے لئے مضبوط خارجہ پالےسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جمہورےت کا تو ےہی مقصد ہے کہ ملک اقتصادی طور پر مضبوط ہو اور اےسی مضبوط اور جامعہ خارجہ پالےسی رکھے جس سے آزاد تجارتی معاہدے اور اےک دوسرے کے احترام پر مبنی خارجہ پالےسی کے اصول بنائے جائیں۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ہر پارٹی قومی مفاد مےں متحد ہو کر اےک جامعہ اقتصادی پالسی بناتی۔ ہم نے دےکھا ہے کہ جب تک پاکستان SEATO اور CENTO کا ممبر رہا مشرقِ وسطیٰ مےں کچھ نہ کچھ پاکستان کی خارجہ پالےسی کا مےاب رہی۔ پھر اچانک پاکستان اکےلا ہو گیا اور اسے مجبوراً امریکہ کے نزدےک آنا پڑا جس کا اپنا vested interest ہے۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ آئندہ کونسی مضبوط اور مربوط خارجہ اور اقتصادی پالیسےاں لائی جائےںگی۔ جو کہ پاکستان کو پھر سے اےک مضبوط بنےاد پر کھڑا کر دیں گی۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ انرجی کے اےشوز کو آئندہ حکومت کس طرح حل کر ے گی ۔ غربت اور بےرورزگاری کا کےا حال ہے اس کا جواب موجود ہے۔
بلوچستان جہاںسےنڈک گولڈ ہے کاپر ہے اور انتہائی قےمتی دھات جو سٹےل مل میں استعمال ہوتی ہے کوئی اےسا infrastructure بنا کر دیا سڑکوں کا جال بچھاکرد ےا ہےوی مشےنری لا کر ہم خود اس سےنڈک گولڈ اور کاپر کو نکالےں اور ملکی معدنےات سے فائدہ اُٹھائےں۔ ان پانچ سالوں میں بجٹ کا کتنا حصہ تھرکول جہاں دنےا کا بہترےن کوئلہ ہے جو کوالٹی کے لحاظ سے سعودی عرب سے ذرا سا کم ہے وہاں زمےنی مٹی کو ہٹا کر اور سڑکےں بنا کر پانی کو قرےب لا کر اگر gasification ہو جائے تو تھر اگلے سو سال تک آ پ کو انرجی دے سکتا ہے۔ کبھی ان بڑی پارٹےوں نے سوچاکہ درےا ہندوستان کی آئے دن کی پانی کی چوری میں اب نالوں کی صورت اختےار کر چکے ہیں۔ اور جہاںhydel پاورچل ہی نہےں سکتی ۔ ہمےں alternative energyکی طرف توجہ دےنا چاہئے سولر انرجی، ونڈ انرجی، Bio-gas کی ضرورت ہے اور انرجی کے اےشوز کو حل کےا جائے۔ کےا ہم نے سوچا کہ ہمارے ملک پر جہاں اللہ کی بہت سے رحمتےں ہیں وہاں مون سون میں بارشوں کے پانی کی Storage ہمےں فصلوں کی زرخےزی کی طرف لا سکتی ہے اور غرےب کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہمارے پہاڑ پتھرےلے ہےں اور ےہاں سے چشمے نکلتے ہےںجس سے ہم ٹےکنالوجی کی مدد سے پاور اور انرجی حاصل کر سکتے ہےں۔
کارےز نہرےں ناےاب ہو چکی ہےں وگرنہ بلوچستان کا بے شمار رقبہ زمےن سر سبزو شاداب پھل اور پھولوں سے اور سبز ی سے بھر سکتی ہےں اور وہاں ہم اگر ڈرائی پورٹ کی تعداد بڑھائےں اور beveragesکی فےکٹرےاں لگائےں تو ہم ٹِن جوسز باہر سپلائی کر سکتے ہیں۔ مگرمیں نے پانچ سالوں مےں دےکھاکہ بہت سے چہرے بالکل وہی ہےں جوچھ چھ مرتبہ الیکشن میں کامےاب ہو کر آئے اور کتنے ڈرون attack ہوئے کتنے زلزلے آئے، سےلاب آئے۔ اُنکے کانوں پر جوں تک نہ رےنگی پھر انتخاب اور انقلاب کےسے ہو گا اور کےسے کہےں گے یہ الیکشن ہے سلےکشن نہےں۔ کےا ہم نے کرپشن کو کنٹرول کےا۔ کےا ہم نے بےرونِ ملک پےسہ چھپانے والو ں کو اور کرپشن کرنے والوں کو disqualifyکےا؟ نہےں۔ تو پھر غرےب تو غرےب تر ہو گا۔ اجتماعی خود کشےاں ہونگی اگر اس مٹی سے غرےب دو وقت کا کھانا بھی نہ کھا سکے تو پھر اقبال نے کہا ہے۔
جس کھےت سے دہقاں کو مےسر نہ ہو روزی
اس کھےت کے ہر خوشہ¿ گندم کو جلا دو