نکولس سرکوزی اپنی اوباشیوں اورعیاشیوں کے باعث خاص شہرت رکھتے تھے۔ان کے مسلمانوں سے نفرت اور تعصب کے جذبات کبھی پوشید نہیں رہے۔مسلم خواتین کے حجاب اوڑھنے اورمسلمانوں پر حلال گوشت کی پابندی جیسے قوانین کا تخلیق کار بھی 2007ءسے 2012ءتک فرانس کا صدر رہنے والا سرکوزی ہی تھا مسلمانوں کی شہریت کے حوالے سے بھی سرکوزی نے کڑی شرائط عائد کیں۔2012ءکے انتخابات جیتنے کیلئے سرکوزی پُرامید تھا۔اپنی طرف سے اس نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کرکے فرانسیسوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اپنی مقبولیت میں اضافے کیلئے قذافی کو اقتدار سے ہٹانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ فرانس کے جنگی طیاروں سے قذافی کی حامی فوج پربمباری کرکے اسے شکست سے دوچار کیا۔ لیکن جیت اس کا مقدر نہ بن سکی ۔اس کی شکست میں سب سے بڑا عنصر مسلمانوں کا اتحاد اور ان کا منظم ووٹ تھا۔سرکوزی اگر اپنے معاشقوں کے حوالے سے بدنام ہیں تو ان کا مد مقابل بھی نیک نام نہیں۔ 2007ءمیں جب فرانکوئس ہالینڈ کی گرل فرینڈ سیگولین رائل، سرکوزی کے مقابلے میں صدارتی انتخاب ہار گئی تو فرانکوئس نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی، بعد میں فرانکوئس کا نام فرانسیسی میگزین ”پیرس میچ“کی صحافی ویلری کے ساتھ لیا جانے لگا اور دونوں اب تک بغیر شادی کئے ایک ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں۔فرانس میں مسلمانوں کی تعدا د پچاس لاکھ ہے ۔وہ خاموشی سے سرکوزی کے ستم کا نشانہ بنتے رہے لیکن صدارتی الیکشن سر پر آئے تو با اثر مسلم کمیونٹی نے بے مثال انتخابی مہم چلائی۔ یہ مہم سرکوزی کی مخالفت میں تھی نہ ان کے مدِّمقابل فرانکوئس ہالینڈ کی حمایت میں۔ مسلم لیڈر شپ کا زور صرف اس بات پر رہا کہ مسلمان ووٹ ضرور کاسٹ کریں،کسی بھی کاسٹ پراور ایسا ہی ہوا۔نتائج سامنے آئے تو سرکوزی صاحب ہار چکے تھے ۔
ہم اپنی سیاسی جماعتوں کے منشور پر نظر ڈالیںتوان سے پاکستان کو عظیم ترین مملکت بنانے اور عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے عزائم چھلک چھلک جاتے ہیں۔تپتے صحراﺅں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتیں،کیکروں سے سیب اور انگور کے گچھے لٹکے اور ہر طرف موٹر وے کے جال بچھے دکھائی دیتے ہیں۔ منشورات ایک جیسے، شخصیات الگ الگ ہیں۔ انسانی فطرت کبھی نہیں بدل سکتی ، سیاسی قائدیں کی بھی نہیں۔ الیکشن میں یقینا قائدین کی شخصیت اور ان کی فطرت ووٹر کے پیش نظر ہوگی ۔
ہر پارٹی کی توقعات نوجوانوں سے وابستہ ہیں ۔ پی ٹی آئی کا زیادہ تر انحصار یوتھ پر ہے۔ ن لیگ طلباءکو لیپ ٹاپ اور سولر یونٹس دے ان کی حمایت کی دعویدار ہے ۔ پیپلز پارٹی کو امید ہے کہ اس کی باگ نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے اس لئے یہی پارٹی نوجوانوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ بلاشبہ ان انتخابات میں نوجوانوں، خصوصی طورپر ڈیڑھ کروڑ نئے ووٹرز کا کردار اہم ہوگا۔ یوتھ پانسہ پلٹ سکتی ہے اگر اس نے 11مئی کو یوتھ والے کام نہ کئے تو.... آج کا نوجوان اپنی تعلیم کی طرف توجہ ضرور دیتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اسے موبائل،انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا بھی نشہ ہے۔ رات بھر ان سے کھیلنا مشغلہ اور اگلے روز چھٹی کی صورت میں دن بھر سوئے رہنا عادت ہے۔ یوتھ آج اپنے وقت اور خرچے پر اپنی پسند کی پارٹی کی کمپین کر رہی ہے۔ 11مئی کا دن حسبِ سابق سو کر گزار دیا تو سب محنت رائیگاں جائے گی۔
2002 کے انتخابات کے درس کو امیدواروں نے یاد نہ رکھا تو ان کی محنت اکارت اور عوامی مینڈیٹ خاک میں مل سکتا ہے۔ امیدوار یقینا کئی ہفتوں کی مہم کے باعث تھکاوٹ سے چور ہوں گے۔ آدھی رات سے قبل نتائج سامنے آچکے ہوں گے ۔ جیتنے کی خوشی میں دھمال ڈال کر تھکاوٹ دور کرنے کے لئے سوجانابختوں کو بھی سلا سکتاہے۔ 2002ءکے انتخابات میں آدھی رات کے بعد نتائج میں ردّوبدل ہوا،رات جیتنے والے کئی صبح تک ہروا دئیے گئے تھے۔ الیکشن کے دن امیدوار چوکس،قائدین ہشیار اور خبردار رہیں۔ جیت اور ہار گیم کا حصہ ہے۔ دھونس اور دھاندلی کے تمام راستے بند کر دیں پھر بھی ہار جائیں تو اسے مقدر کا لکھا اور عوام فیصلہ سمجھ کر قبول فرمائیں۔ شدت جذبات میں دھاندلی کا واویلا کرنے اور بندوق نکالنے کے بجائے حریف کومبارکب دینے کا حوصلہ پیدا کریں۔
آج آخری روزانتخابی مہم پور ے جوبن پر ہوگی۔عمران خان کے سٹیج سے گرنے کے باعث 8مئی کو سیاسی سرگرمیاں معطل رہیں ۔مسلم لیگ ن سمیت تمام پارٹیوں نے عمران خان کے ساتھ یکجہتی و یگانگت کے لئے اپنے جلسے منسوخ کر دئیے ۔آج امیدواروں اور ان کے حامیوں پر ایک دن کی کسر نکالنے کاجنون طاری ہوگا۔ امیدوار اور ان کے سپورٹر حلقے میں ڈیروں پر حاضری دیکر ووٹ پکے کریں گے۔ اگلے پانچ سال پھر ڈیرے دار حاضریاں دیں گے۔ کوئی اور تبدیلی آئے نہ آئے ووٹ کی بھیک مانگنے والے ایک ہی رات میں موالی اور ووٹر سوالی بن جائیں گے۔ مہم کے دوران امیدواروںنے سپورٹر کو جو پھوک دی تھی وہ اگلے روز امیدوار کے روئیے کے باعث نکل چکی ہوگی۔ گویا دوسرے اورتیسرے درجے کے سپورٹر ابن سباح کی جنت سے باہر ہونگے اور حشیش کا نشہ اتر چکا ہوگا۔
امیدواروں اور پارٹیوں کے سپورٹربرداشت اور تحمل کا دامن کسی طورپرنہ چھوڑیں۔ معمولی بات پر کچھ لوگوں کا پارا چڑھ جاتا اور دم کو آگ لگ جاتی ہے۔ بات گالم گلوچ سے ہاتھا پائی اور خون خرابے تک بھی پہنچ کر دائمی دشمنی کا روپ دھارلیتی ہے ۔جن کی خاطر لڑے ، خون بہایا اور دشمنی پالی ، وہ الیکشن کے بعد باہم گلے ملتے اور ایک دوسرے کی حمایت سے وزارتیں انجوائے کر رہے ہوتے ہیں۔
دہشت گردی کی فضا میں ہونے والے انتخابات کی بڑی اہمیت ہے، اس دہشت گردی کا خاتمہ بھی ووٹ کی پرچی سے ہونا ہے۔ ملک کی بقا سلامتی و سالمیت، خود مختاری اور وقار بھی پرچی ہی سے منحصر ہے۔ مسائل، مشکلات اور بحرانوں کی دلدل سے بھی پرچی ہی نکال سکتی ہے۔
انتخابی نتائج کے حوالے سے کوئی بھی پیش گوئی کرنا ممکن نہیںتاہم پیپلز پارٹی ، ن لیگ ،پی ٹی آئی ق لیگ ، اے این پی ،متحدہ اور جے یو آئی سمیت ہر پارٹی کو اپنی کامیابی کا یقین ہے ۔عمران خاں کے حادثے کے بعد سیاسی جماعتوں میں کشیدگی عروج سے زوال پزیر ہوگئی ۔ آج سب پارٹیاں دشنام اور الزام کے بجائے اپنا پروگرام قوم کے سامنے رکھ رہی ہیں۔جب ہر پارٹی اپنی فتح کا خواب دیکھ رہی ہے تو اس خواب کو تعبیر دلانے اور فتح کو مزید زور دار بنانے کے لئے ووٹر کو گھر سے نکلنے پر مائل اور قائل کریں۔ہر ووٹر کو جگائیںجس طرح فرانس کی مسلم لیڈر شپ نے مسلمان ووٹر کوپولنگ سٹیشن پر لا کر بغیر کنونسنگ کے اپنا مقصد حاصل کر لیا تھا۔اسی طرح اپنی فتح و نصرت کے خواب دیکھنے والی پارٹیاں بھی اپنا مقصد حاصل کر سکتی ہیں۔
اٹھو، ہر ووٹر کو جگادو!
May 10, 2013