بچہ غریب کا ہو یا امیر کا، کھلونوں کی دکان میں جا کر پریشان ہو جاتا ہے کہ کونسا کھلونا پسند کرے، اس کی خواہش تو یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کھلونے پسند کر ے لیکن بہتر سے بہتر چننے کی خواہش ضرور اس کے اندر موجود ہوتی ہے۔ یہی حالت آج کل پاکستانی قوم کی ہے۔ پاکستانی قوم کو پارلیمانی جمہوریت کے 44 برسوں میں پہلی مرتبہ اپنے نمائندے چننے میں فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ 44 برسوں سے پارلیمانی جمہوریت کیلئے انتخاب دائیں بازو کی مسلم لیگ اور اس کی ساتھی، حمایتی، اتحادی جماعتوں کا گروپ بمقابلہ سیکولر کہلانے والی اس پیپلزپارٹی میں سے ایک کا چنا¶ کرنا پڑتا تھا جس نے سوشلزم ہماری معیشت کا نعرہ لگا کر پاکستان میں دائیں بازو کی سیاست سے الگ اپنی شناخت قائم کی تھی۔ 44 برس پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑا، مکان اور سوشلزم ہماری معیشت کا نعرہ لگایا تو اس ملک کا وہ غریب مزدور ہاری جو بدترین حالات میں زندگی گزار رہا تھا، پیپلزپارٹی کی طرف ایسا متوجہ ہوا اور بھٹو کا ایسا گرویدہ ہوا کہ پیپلزپارٹی آج بھی اسی غریب ووٹر پر اپنی سیاست کر رہی ہے۔ 1970ءسے 2013ءکے دوران بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔ضیاءالحق کے مارشل لا، بھٹو کی پھانسی، ایم آر ڈی کی تحریک، 85ءکے غیرجماعتی انتخابات، میاں نواز شریف کی سیاست میں آمد، بینظیر بھٹو کی وطن واپسی اور 1988ءمیں بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی انتخابات میں کامیابی اور حکومت بنانے سے دائیں بازو کی ان جماعتوں کو شدید دھچکا لگا جو ضیاءالحق کے زیرسایہ بھٹو مخالفت میں حکومت کر رہی تھیں اور ضیاءالحق کی موت کے بعد بھٹو مخالفین کو اکٹھا کرنے کی ایک ”کاوش“ کے نتیجہ میں اکٹھی ہوئی تھیں۔ ان قوموں نے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف کی سربراہی میں وفاقی حکومت کے خلاف جدوجہد کی اور پھر حکومتیں بنانے اور گرانے کا سلسلہ شروع ہوا جو 1999ءمیں پرویز مشرف کے مارشل لاءپر جا کر تھما۔ 1988ءسے 1997ءکے 4انتخابات میں مقابلہ دائیں بازو کی جماعتوں اور بھٹو کے درمیان رہا۔ دوسرے الفاظ میں انٹی بھٹو جماعتوں سے بھٹو کی جماعت کا مقابلہ ہوا۔ عوام کے پاس کوئی تیسری چوائس نہیں رہی۔ جنرل مشرف نے نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی جلاوطنی میں انتخابات کروائے مگر ووٹروں نے ووٹ دائیں بازو کی مسلم لیگ اور بھٹو کی پیپلزپارٹی کو ہی دیا البتہ ایم ایم اے کی شکل میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی کامیابی نے انتہائی دائیں بازو کی کامیابی کی نئی مثال قائم کر دی۔ 2008ءکے انتخابات بینظیر بھٹو کی موت اور نواز شریف کی طویل جلاوطنی کے باوجود دونوں جماعتوں کو ملک کی بڑی جماعتیں بنوا گئے۔ وفاق میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو حکومتیں ملیں مگر بدقسمتی سے دونوں جماعتوں کی کارکردگی نے انہیں آج اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کو ”تیسری قوت“ کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف کی شکل میں سامنے آنیوالی اس تیسری قوت کا کپتان پاکستانی کرکٹ ٹیم کا سابق کپتان عمران خان ہے جس نے ورلڈکپ جتوایا اور اب پاکستان کو ترقی کی دوڑ میں کامیاب کرانے اور جدید ترقی یافتہ ممالک کے برابر لانے کا دعویدار ہے۔ عمران خان نے آج سے 18 سال پہلے راقم الحروف کو نوائے وقت کیلئے دئیے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ قرآن پاک ترجمے سے پڑھا تو زندگی بدل گئی۔ یہ الفاظ اس خوبرو کرکٹر کے تھے جس کی سو کہانیاں مشہور تھیں۔ شوکت خانم ہسپتال کے بعد عمران خان ایک سیاسی عزم کے ساتھ سیاست کے میدان میں اترا تو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر آج 17 برس کی تپسیا کے بعد وہ ”تھرڈ چوائس“ ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس اقتدار میں 5 برس گزارنے کے باوجود عوام سے ووٹ مانگنے کیلئے جھولی میں کچھ نہیں ہے لہٰذا اپنی کامیابیوں کی بجائے دوسروں کی ”ناکامیوں“ اور ”خرابیوں“ پر مشتمل میڈیا مہم سے ان کے ووٹ خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں پانچ سال حکومت کی مگر آج بھی صوبائی دارالحکومت لاہور کا عالم یہ ہے کہ نلکوں سے پینے کا صاف پانی عوام کو میسر نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے صوبائی دارالحکومت میں میٹرو بس، فلائی اوورز، انڈرپاسز کی شکل میں بہت ترقیاتی کام کئے مگر غربت کی لکیر کے نیچے جانے والوں کی تعداد میں اضافہ بہت زیادہ ہے اور امن و امان کی صورتحال بھی کوئی اچھی نہیں رہی کہ ڈاکو کسی کو کہیں بھی کسی بھی وقت لوٹ سکتے ہیں۔ 44 سال کے بعد آج دائیں اور بائیں بازو کی دو مستند جماعتوں کا اقتدار کا سنگھاسن خطرے میں ہے۔ تیسری قوت کیا تھرڈ چوائس بنتی ہے یہ 11 مئی کو ووٹر کا ووٹ فیصلہ کرے گا مگر دائیں اور بائیں بازو والوں کو اب سوچنا ہو گا کہ اب ”متبادل“ میدان میں آ گیا ہے، اگر اب بھی عوام کے مسائل کی بجائے ”ذاتی مسائل کے حل“ پر توجہ دی تو پھر تھرڈ چوائس آ گئی ہے۔