سپریم کورٹ آف پاکستان نے بجا طور پر کہا ہے کہ پاکستان کیسی اسلامی فلاحی ریاست ہے جہاں لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور سانس لینے کی قیمت بھی وصول کی جاتی ہے سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں جو کہا ہے کہ وہ ہمارے ارباب اختیار کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے‘ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم کی آنکھیں بند ہوتے ہی ہمارے ہاں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو گئی تھی جو تاحال بدرجہ اتم جاری ہے کرب کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ کئی دھڑوں اور گروہوں میں بٹ گئی اور برسراقتدار آنیوالے ہر دھڑے نے ٹکٹوں کی تقسیم سے کلیدی آسامیوں کی تعیناتی تک کے معاملات میں جماعت کے قدیم نظریاتی کارکنوں کو فراموش کرکے طبقہ اشرافیہ کو نواز نے کا لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا‘ افسوسناک امر یہ ہے کہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں گراں قدر قربانیاں دینے والوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا‘ بحیثیت تجزیہ نگار راقم یہ بات کہنے میں کوئی باک محسوس نہ کرتا ہے کہ موجودگی لیگی قیادت نے نظریہ پاکستان کے فروغ کیلئے انتھک قربانیاں دینے والوں سے اپنی ملاقات کے دروازے بھی بند کر رکھے ہیں۔ جس سے انکی قائداعظم کی باقیات سے عقیدت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے‘ چاہے تو یہ تھا کہ موجودہ لیگی قیادت بانی پاکستان کے اس حقیقی ورثہ کو انکا جائز مقام دیتی مگر مقام افسوس یہ ہے کہ لیگی قیادت تادم تحریر اس سنجیدہ مسئلہ کی جانب صرف نظر کرنے کو تیار نہ دکھائی دیتی ہے جس سے حضرت قائداعظم کے ان جانثاروں اور قافلہ سالاروں کے حوصلے پست ہو رہے ہیں‘ پاکستان ایک نظریاتی اسلامی فلاحی ریاست ہے مگر اس ریاست میں انصاف اور استحقاق کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں‘ عوام دو وقت کی روٹی میسر نہ ہونے کے باعث خود کشیوں پر اتر رہی ہے‘ تعلیم یافتہ نوجوان حصول روزگار کیلئے مارا مارا پھر رہا ہے‘ روز افزوں گرانی نے غریب‘ پسماندہ اور متوسط طبقے کو ادھ مویا کر رکھا ہے‘ بڑھتے ہوئے جرائم کے باعث شہری عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ایسے میں سپریم کورٹ کا یہ کہنا غلط نہ ہے کہ شاید یہ ملک مراعات یافتہ طبقات کیلئے بنایا گیا ہے‘ ایک نظریاتی مملکت میں نظریاتی کارکنوں کا استحصال یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں جو ایک فکر انگیز بات ہے‘ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے برسراقتدار حکمرانوں کو اس بات کا تاحال ادراک نہ ہو سکا ہے کہ میٹرو بس سروس کے اجرا سے پسی عوام کے بنیادی مسائل حل نہ ہو سکتے ہیں آج بھی ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی بہتر سہولیات میسر نہ ہیں ایسی ہی حالت زار ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کی بھی ہے دانشمندی کا تقاضا یہ تھا کہ میٹرو بس سروس کے قیام پر اٹھنے والی کثیر رقم 18کروڑ عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے پر صرف کی جاتی تاکہ انکی تکالیف میں کچھ کمی واقع ہو سکتی‘ تحریک پاکستان کے ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے مجھے اس بات کا شدید رنج ہے کہ بھارت جس کے ضمیر میں پاکستان دشمنی رچی بسی ہوئی ہے اور مقبوضہ وادی جموں و کشمیر میں بسنے والے نہتے اور بے گناہ کشمیری مسلمانوں کو وہ گاجر مولی کی طرح کاٹنے میں مصروف ہے کی فلموں کو ہم اپنے سینما گھروں میں دکھا کر نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کر رہے ہیں۔ ہمارے شہر کراچی کو بداماں بنانے میں بھی بھارت کا خفیہ ہاتھ کارفرما ہے یہ ایک الگ بات ہے کہ ہم اسکا نام لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور اسکی کرتوتوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ہم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ امید واثق ہے کہ ہمارے ارباب اختیار ان معروضات پر صرف نظر کریں گے۔