پاکستان کے تقریباً تمام ہی سیاسی حلقے اس بات پر خاص زور دیا کرتے ہیں کہ موجودہ نظام بوسیدہ ہوچکا ہے اور اس کی موجودگی میں نہ تو کرپشن کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی معاشی اور معاشرتی فلاح کے راستے کھل سکتے ہیں۔ مگر نہ تو کوئی سیاسی جماعت اور نہ ہی کوئی سیاسی قیادت یہ وضاحت کرنے کیلئے تیار ہے کہ ’’ موجودہ نظام ‘‘ سے مراد کیا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ وطنِ عزیز میں یا تو فوجی ڈکٹیٹر شپ یعنی مطلق العنانی ’’ موجود ‘‘ رہی ہے یا پھر جمہوریت کے نام پر ہونیوالے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونیوالی امراء شاہی ۔ آج جس سیاسی منظر نامے کا سامنا وطنِ عزیز اور اس میں بسنے والی قوم کو ہے اس میں یہ سوال اٹھنا ایک فطری امر ہے کہ ’’ کیا ہمارے سامنے کوئی تیسرا آپشن موجود ہی نہیں یا اگر ہے تو ہم اس سے نظریں چرانے کے عادی ہوگئے ہیں؟‘‘
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ٗ اُسی آئین کو ہی سامنے رکھ لینا چاہئے جس کی شق نمبر6کے تحت جنرل )ر(پرویز مشرف پر ’’ غداری ‘‘ جیسے سنگین الزام کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔اس آئین کی آرٹیکل 2کہتی ہے کہ پاکستان کا سرکاری مذہب یا دین اسلام ہوگا۔ اِس آرٹیکل کی مزید وضاحت کیلئے آرٹیکل 2Aمیں کہا گیا ہے کہ آئین کے دبیاچے میں پورے آئین کی روح قرار پانے والی قراردادِ مقاصد کے متعین کردہ تمام اصول پاکستان میں پوری طرح نافذ ہوں گے۔ گویا آئین پاکستان نے اپنا آغاز ہی عوام اور حکمرانوں دونوں کو اللہ کی حاکمیت کا مکمل طور پر پابند بنا کر کیا ہے۔ اگر کسی شخص کے ذہن میں آتا ہے کہ اسلام کے ریاستی دین ہونے کا مطلب خدا کی حاکمیت پر ایمان رکھنے کے علاوہ کچھ اور ہے تو بہتر ہوگا کہ وہ اسلام کے بارے میں بہتر معلومات حاصل کرنے کیلئے کسی ایسی درسگاہ سے رجوع کرے جہاں مسلم اور غیر مسلم کا فرق واضح کیا جاتا ہو۔
کہنا میں یہ چاہ رہا ہوں کہ جس تیسرے )بلکہ حقیقی(آپشن سے نظریں چرائی جاتی ہیں وہ ہمارے آئین میں بڑی واضح ترجیحی بنیادوں پر موجود ہے۔ پاکستان پر حاکمیت نہ تو کسی فوجی آمر کی قابلِ قبول ہے او ر نہ ہی اُن امراء کی جو ایک متنازعہ انتخابی عمل کے نتیجے میں اقتدار حاصل کیا کرتے ہیں۔ پاکستان پر حاکمیت صرف اور صرف قادرِ مطلق کی ہونی چاہئے او ر اس حاکمیت کا نفاذ قرآن حکیم میں وضاحت سے پیش کئے جانیوالے قوانین اور خدا کا آخری پیغام خلقِ خدا تک پہنچانے والے پیغمبر ؐ کی حیاتِ مبارکہ کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔قرآن حکیم خدا کا کلام ہے۔ جس شکل اور انداز میں یہ اُترا اسی شکل اور انداز میں آج بھی ہماری رہنمائی کیلئے موجود ہے او ر تا قیامت رہے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ قرآنی تعلیمات کے بارے میں تنازعات کھڑے کرتے ہیں او ر ایسا کرکے عام مسلمانوں کے ذہنوں میں ابہام اور انتشار پیدا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں ٗ وہ لوگ حقیقی معنوں میں عبداللہ ابن ابی کے پیروکار ہیں۔ جہاں تک آنحضرت ؐ کی حیاتِ مبارکہ کا تعلق ہے اس کا مطالعہ کرنا آج کے دور میں کسی بھی پڑھے لکھے شخص کی پہنچ سے دور نہیں ہونا چاہئے۔ ہم تو الحمد اللہ مسلمان ہیں اور خود کو آپ ؐ کی امت قرار دیتے ہیں میں یہا ں ذکر ’’ مائیکل ایچ ہارٹ ‘‘ کا کروں گا جو مشہور کتاب "The 100"کا مصنف ہے۔ اِس کتاب میں ہارٹ نے تاریخ کے ایسے ایک سو بڑے آدمیوں کی درجہ بندی کی ہے جنہوں نے انسانی تہذیب یا تہذیبوں پر سب سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کئے۔ ہارٹ نے اپنی ’’ درجہ بندی ‘‘ میں سب سے اوپر پیغمبر ؐ اسلام کا نام رکھا ہے ۔ اس نے تاریخ میں حضرت محمد ؐ کا مقام متعین کرتے وقت صرف اور صرف زمینی حقائق کو سامنے رکھا۔میں اس سلسلے میں یہاں ہارٹ کے اپنے دیباچے کے چند اقتباسات پیش کروں گا۔
’’ یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ کسی شخصیت کو کس مقام پر رکھوں میں نے اُس تحریک کو پورا وزن دیا ہے جس سے وہ شخصیت وابستہ تھی یا ہے۔ اِس بات کی وضاحت میرے اس فیصلے سے ہوتی ہے کہ میں نے )حضرت ( محمد ﷺ کو )حضرت(عیسی )علیہ السلام ( پر فضلیت دی ہے۔ اور میرے اس فیصلے کی سمجھ میں آنے والی آسان وجہ یہ ہے کہ میری رائے میں مسلمانوں کے دین یعنی اسلام کی تشکیل اور اس کے فروغ میں )حضرت (محمد ﷺ کا ذاتی کردار اور ذاتی حصہ عیسائیت کی تشکیل اور فروغ میں حضرت عیسٰی ؑ کے ذاتی کردار اور ذاتی حصے سے کہیں زیادہ تھا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے پیروکار اس بات کا مطلب یہ نہ لیں کہ میں نے پیغمبراسلام ؐ کو اُن پر فضلیت دی ہے۔ میرا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ دنیا میں کسی بھی فرد نے اپنی شخصیت کے اثرات اتنے گہرے مرتب نہیں کئے اور نہ ہی اتنے گہرے چھوڑے ہیں جتنے گہرے اثرات پیغمبر اسلام ؐ نے مرتب کئے اور چھوڑے۔‘‘
ہارٹ کے اِن الفاظ ے ان دانشوروں کی ’’ دانش ‘‘ پر سے پردہ ہٹ جاناچاہئے جو اپنے آپ کو او ر ساتھ ہی دوسروں کو بھی یہ باور کرانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں کہ آج کی دنیا میں اسلام اور خدانخواستہ پیغمبر اسلام ؐ دونوں irrelevantہوچکے ہیں ۔ اگر آنحضرتؐ کی عظمت صرف ایک دین کے بانی ہونے میں ہوتی تو چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی یہ قوم ’’ قوم ہاشمی ‘‘ نہ کہلاتی ۔ میری حقیر رائے میں آنحضرت ؐ کی حقیقی عظمت آپ ؐ کی شخصیت کی ’’ ہمہ جہتی ‘‘ میں پائی جاتی ہے۔ آپ ؐ ایک طرف تو ایک دین کے بانی تھے لیکن دوسری طرف آپ ؐ نے اس دین کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اِس دین کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق ایک ریاست قائم کی جو ابتداء میں صرف مدینہ نام کی ایک بستی تک محدود تھی لیکن پھر اس طوفانی رفتار کے ساتھ پھیلنا شروع ہوئی کہ اس کی پیشقدمی کے سامنے قیصر و کسریٰ کی تمام تروسعتیں بھی سکڑ کر رہ گئیں۔یہاں یہ سوال اٹھے بغیر نہیں رہتا کہ ’’ کیا یہ حقیقت تو نہیں کہ اسلام واقعی بزور شمشیر پھیلا۔؟‘‘ اس سوال کے جواب میں دو مختلف باتیں کہیں جاسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ دین اسلام میں کوئی جبر نہیں۔ مسلمانوں نے شاید ہی اپنی تاریخ کے کسی بھی دور میں غیر مسلمانوں کواپنی طاقت کے بل بوتے پر ’’ قبولِ اسلام ‘‘ پر مجبور کیا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان پر سات آٹھ سو برس تک غالب قوت کے ساتھ حکومت کرنے کے باوجود مسلمان ہندوئوں کے مقابلے میں اتنی بڑی اقلیت میں نہ رہتے۔یہی بات ہم ہسپانیہ پر مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دورِ حکومت کا حوالہ دے کر کہہ سکتے ہیں۔ مسلمانوں نے کبھی ہسپانیہ میں اپنے آپ کو جبر کے ذریعے واضح اکثریت میں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر انہوں نے بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کئے ہوتے جو فرڈی نینڈ اور ازابیلانے یا اُنکے جانشینوں نے Inquisitionنام کی بدنامِ زمانہ تحریک کے ذریعے سقوطِ غرناطہ کے بعد استعمال کئے تو ہسپانیہ کبھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نہ نکلتا۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ بدی کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے مسلمانوں نے بھی اپنے دین کی اس بنیادی تعلیم سے انحراف نہیں کیا کہ اسلام میں کوئی جبر نہیں۔پھر اسلام حجاز کی سرحدیں عبور کرکے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کیسے پہنچا؟
اس سوال کے جواب میں اِس حقیقت کا اعتراف کرنے میں ہمیں کوئی باک محسوس نہیں کرناچاہئے کہ ہم نے کرہ ء ارض کی وسعتوں کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں کے سامنے سمٹ جانے پر مجبور کردیا تھا۔
اسلام کے اس عسکری پہلو کی وضاحت میں ایک سادہ سی مثال کے ذریعے کرتا ہوں۔ اگر کسی اراضی پر آپ کو کوئی فصل اگانا مقصود ہو تو اس کی پہلی اور لازمی شرط اِس اراضی پر آپ کامکمل قبضہ ہے۔ دنیاکی پوری تاریخ اسی اصول کی بنیاد پر آگے بڑھتی رہی ہے۔
ہمارے لئے ہر وہ لفظ اہم ہے جو آپ ؐ کی زبانِ مبارک سے نکلا مگرزیادہ اہم آپ کی حیات ِ مبارکہ کا ایک ایک عملی لمحہ ہے۔
آپ ؐ کی زندگی کے قبل ازنبوت کے برس کیسے گزرے اس کی ایک الگ تفصیل ہے۔ لیکن آپ ؐ کی نبوت ؐ کے 23برس کیسے گزرے وہ ہمارے لئے نشانِ راہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہجرت کے سفر سے پہلے آپ ؐ محض ایک پیغمبر تھے۔ خدا کے آخری پیغمبر۔ مگر ہجرت کے بعد آپ ؐ کی زندگی ایک سپاہی ٗ ایک سپہ سالار اور ایک ریاست ساز کی زندگی میں بھی تبدیل ہوگئی۔ آپ ؐ کی زندگی کا یہ دور زیادہ تر اونٹ یا گھوڑے کی پیٹھ پر گزرا۔جو لوگ آپ ؐ کی زندگی کے اس تاریخ ساز دور سے اپنے لئے ہدایت اور تقلید کی روشنی حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ٗ وہ اسلام کی حقیقی روح کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔جو مسلمان اسلام کا بازوئے شمشیرزن نہیں وہ آنحضرت ؐ کا حقیقی پیروکار اور نام لیوا بھی نہیں۔یہ دنیا روزِ اول سے ہی کمزوروں کی قبر اور طاقتوروں کا گہوارہ بنتی رہی ہے۔