ناقابل معافی جرم

یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب لاہور شہر میں اقبال ٹائون کا رہائشی منصوبہ سولہ سو ایکٹرسکیم کے حوالے سے زبان زدعام ہوا۔ تب پاکستان فلم انڈسٹری کے تمام سٹوڈیوز اس علاقے سے جڑے ملتان روڈ پر واقع تھے۔ مزے کی بات کہ فلم سٹوڈیو میں کام کرنے والے لوگوں کیلئے بھی یہ جگہ اللہ میاں کا پچھواڑہ تھی۔ عام لوگ مصری شاہ، گوالمنڈی، کرشن نگر اور ذرا امراء سمن آباد، گلبرگ اور ماڈل ٹائون کے رہائشی تھے۔ شہری گنجان علاقوں سے غم روزگار کم کرنے کیلئے سٹوڈیوز میں آنیوالے ورکرز کیلئے بھی یہ علاقہ رہائش کیلئے کوسوں دور ہونے کی وجہ سے موغوب نہ تھا لیکن کہتے ہیں جب کسی بھی مرحلے کیلئے پہلا قدم اٹھ جائے تو سفر شروع ہو ہی جاتا ہے، بستیاں بس ہی جاتی ہیں۔ جب میں 1984ء میں اقبال ٹائون کے نرگس بلاک میں آباد ہوئی تو میرے سامنے بدر بلاک کے چند گھروں سے پیچھے ملتان روڈ صاف دکھائی دیتی تھی اور اقبال ٹائون کا راوی بلاک کھیتوں کی ہریالی میں ڈوبا تھا۔ پودینہ دھنیا سال کے بارہ مہینے خودرو اگتا اور بہت ساری گھریلو خواتین کی طرح میں بھی کسی سے کہہ کر اس سے استفادہ کرتی لیکن ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے جوہر ٹائون اکیس سو ایکڑ اور پھر شوکت خانم، واپڈا ٹائون، نیسپاک اور باقی سکیموں کیلئے زرعی زمین کے ایکڑز گننے کا رواج ختم ہو گیا۔ لاہور چاروں طرف سے رہائشی سکیموں کے پھیلائو کیساتھ شیخوپورہ، قصور، رائیونڈ اور شالیمار سے واہگہ تک رہائشی علاقوں میں گھر گیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی موہلنوال سے لیکر بھائی پھیرو تک سفر کے دوران کھیتوں کا حجم گھٹتا جا رہا ہے اور پھر وہ زرعی کھیت جو کبھی ہمارے لئے اناج پیدا کر رہے تھے دیکھتے ہی دیکھتے کنکریٹ ہونے لگے۔ آج میں جس ہائوسنگ سوسائٹی میں شفٹ ہوئی ہوں یہ کبھی موہنوال کا پچھواڑہ تھا، اس سے آگے سکھ چین اور بحریہ ٹائون کا رہائشی علاقہ ہماری تیزی سے بڑھتی آبادی نے ایسے ہی آباد کیا ہے جیسے یہ کبھی زرعی اراضی تھی ہی نہیں۔ یہ صرف لاہور شہر کے گرد و نواح کی بات ہے جہاں ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کو ہم نے اپنی غیرجامع منصوبہ بندی سے کنکریٹ میں بدل دیا ہے لیکن اگر ہم فیصل آباد، ساہیوال، سرگودھا سے لیکر صادق آباد تک پورے پنجاب کا جائزہ لیں تو حسرت کے ساتھ ساتھ ایک خوفناک انکشاف بھی ہوتا ہے کہ ہم کس تیزی سے پورے پنجاب کو پتھر بنائے جا رہے ہیں۔ وہ زمین جو پورے ملک کیلئے ہی نہیں ملک سے باہر بھی لاکھوں انسانوں کیلئے رزق پیدا کرتی رہی ہے پانی کی کمیابی کی وجہ سے نہیں انسانی حرص اور پیسے کے حصول کی دوڑ کی وجہ سے سڑکوں، بازاروں اور کالونیوں میں تبدیل کی جا رہی ہے۔ بات یہیں تمام نہیں ہوئی ملک کے باقی دو صوبوں خاص طور پر سندھ اور کے پی کے کو بھی ایسے ہی حالات درپیش ہیں، کبھی کراچی سے حیدر آباد اور جام شورو کا سفر کریں تو پورٹ قاسم کے علاقے ہی سے تمام صورت واضح ہونے لگتی ہے کہ انسانوں کے ہجوم نے کس طرح کھیت کھلیان نگل لئے ہیں، یہ سارے زرخیز زرعی علاقے جو ملک کیلئے اناج اگاتے تھے آخر کیوں آبادیوں میں ڈھل رہے ہیں؟ بڑے بڑے وڈیروں، زمینداروں نے تو شاید ایسا نہ کیا ہو، ہاں چھوٹے مفلوک الحال کسانوں کیلئے جب اپنی زمین کا اناج ناکافی ہونے لگا، رزق روٹی کیلئے بیج سے لیکر قدرتی آفات تک نے زندگی اجیرن کی، کبھی پانی نہ ہونے اور کبھی بہت زیادہ ہونے سے بربادی نے انکے گھر کی راہ ہی دیکھ لی تو پھر سوچ کا انداز بدلا! ملک میں تعلیم اور اسکے دوہرے معیار نے ترقی کے راستے معدوم کئے تو ذہن میں کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے، اس لئے کہ اب وہ زمانے لد گئے جب سڑک کے کنارے سٹریٹ لائٹ میں پڑھ کر کوئی نامور ہو جاتا تھا۔ اس دوہرے نظام تعلیم نے ہمارے ہاں احساس محرومی کی ایسی زہریلی فصلیں بوئی ہیں جن کا زہر آنیوالے دنوں میں معاشرہ کے جسم و جاں کو ہلا کے رکھ دے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کوئی بھی ایسا کام کرنے کیلئے تیار نہیں جو معاشرتی، معاشی مسائل کو جڑوں سے درست کرے، ہمیں ہوائی پل نظر آنے والے ہائی ویز اور موٹرویز اور انٹرچینج زیادہ بھاتے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر سوکھے پینڈے بنانے والے کھیت کے دوام کیلئے کوئی پالیسی نہیں بنا رہے۔ صنعتی زون اور موٹروے تھری کی منصوبہ بندی کرنیوالوں کیلئے صنعتی ترقی کیلئے توانائی کے بحران کا حل جزوقتی ہے۔ اگر ہم وفاقی کارکردگی کی بنا پر محترم وزیراعظم سے ایسے ہی کسی صنعتی انقلاب اور منصفانہ تقسیم وسائل کیلئے بلوچستان کی سرزمین پر نئی بستیوں، نئے کالجوں، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں، سیمنٹ اور ماربل کی صنعتوں کے ساتھ ساتھ سڑکوں، موٹرویز انٹرچینج کی درخواست کریں تو شاید قومی سطح پر بظاہر ان کو یہ منفعت بخش نہ لگے لیکن زرخیز زمین کو کنکریٹ کرنے کی بجائے ترقی یافتہ ممالک کی طرح پتھریلی زمین پر اگر نئے شہر ہر آباد کئے جائیں، وہاں شہری سہولیات بہم پہنچائی جائیں تو شاید آنے والی نسلوں کیلئے ہم کچھ زرعی زمین بچا لیں ورنہ زرخیز زمین کا زیرزمین پانی بھی بور کر کے ملک ہضم کرنیوالے پی جائینگے اور عوام دیکھتے ہی رہ جائینگے۔ مزے کی بات ہے کہ ملک میں اٹھارہ برس سے صحیح آبادی کے تعین کیلئے مردم شماری نہیں ہوئی تو ایسے میں عوام کو کھتونی، خسرہ اور زمین کی چھانٹ کے چکروں میں الجھانے والے زرعی اراضی کے صحیح زیرکاشت رقبے کے بارے میں کیا بتا سکتے ہیں؟ گوگل کو ریسرچ کا پیمانہ سمجھنے والے پاکستانی اعداد و شمار میں گوگل کو بھی خاموش پاتے ہیں یعنی ہمارے ذہین فطین اختیار یافتہ ارباب نے گوگل کو بھی مات دے رکھی ہے۔ ایسے ہی ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھ کر فخر محسوس کرنیوالے سیاسی و عوامی نمائندوں سے درخواست ہے کہ تمام اسمبلیاں زرعی اراضی کے حوالے سے جامع منصوبہ بندی کیلئے قانون سازی کریں۔ زرعی زمین کو کنکریٹ کرنا غیرقانونی اور ناقابل معافی جرم قرار دینا پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کو سلامت رکھنے کے مترادف ہے، ایسے میں چھوٹے کسانوں اور مجبور زمینداروں کیلئے زرعی اصلاحات ناگزیر ہیں ورنہ بھیک منگوں کا کیا ہے، کل کو یہ ڈالرز کے ساتھ ساتھ اناج کی بھیک بھی مانگنے لگیں گے!

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...