اقتدار کیلئے ہجوم اور ریوڑ کا استعمال

May 10, 2016

محی الدین بن احمد دین

پوری دنیا انتہا پسندی، جھوٹ، تعصب، نفرت کی سیاست سے دو چار ہے۔ اقتدار کا حصول مثبت و تعمیری سوچ، انسانی تحفظ و ترقی کی بجائے مسلمانوں سے نفرت، تعصب اور جارحانہ نسلی ایجنڈوں کے ذریعے راستہ اپنا چکا ہے۔ اقتدار میں آنے کا یہ منفی فارمولا بھارت میں بی جے پی اپنا کر مستحکم ترین جمہوری اقتدار حاصل کر چکی ہے۔ یہی فارمولا امریکی صدارتی انتخابات میں زیر استعمال رہا ہے۔ مسلمانوں اور عربوں سے نفرت و تعصب، آجکل ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بننے کے لیے یہی فارمولا استعمال کر رہا ہے۔ ردّ عمل میں کچھ کنزرویٹو نظریات کے حاملین ٹرمپ کو شکست سے دو چار کرنے پر کمربستہ ہیں۔ وہ ری پبلکن ہو کر بھی سوچ رہے ہیں کہ کیا وہ ڈیموکریٹ ہیلری کو ووٹ دے سکتے ہیں؟ ان کا موقف ہے کہ آج امریکہ میں ڈیموکریٹ یا ری پبلکن کا معاملہ نہیں رہا بلکہ امریکی صدارتی انتخابات ملکی سلامتی کے مستقبل کا مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ پہلو اپنے اندر بہت سا سامان فکر رکھتا ہے کہ کس طرح افراد اور پارٹیاں جیت کر بھی اخلاقیات کی دنیا میں ہار جایا کرتی ہیں؟ لندن میں حال ہی کا جیتا ہوا میئر صادق خاں حلف اٹھانے کے بعد وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون پر برس پڑے ہیں کہ انہوں نے میئر کا انتخاب جیتنے کے لیے ٹرمپ انداز سیاست اپنایا۔ مسلمان پاکستانی نژاد بس ڈرائیور کے بیٹے کو شکست سے دو چار کرنے کے لیے نسلی تفریق اور اسلام فوبیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا تھا۔ مگر لندن والوں نے زیک گولڈ سمتھ کے نسلی تفریق اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی ایجنڈے کو مسترد کر دیا ہے۔ کیا امریکی عوام یہی کچھ ٹرمپ کے ساتھ کرنے والے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہیلری بھی پاکستان سے کہیں زیادہ انتہا پسند، جارح و توسیع پسند بھارت کی حامی، وکیل اور مدد گار رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹرمپ جیتے تو عربوں، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تاریخی مسیحی کروسیڈی جذبہ جہاد عروج پر ہو گا اگر ہیلری جیتے تو پاکستان کی بجائے بھارت خواہ وہ توسیع پسند، جارح، اور انتہا پسندی کی مسلمہ تاریخ ہی رکھتا ہو مکمل فائدے میں رہے گا۔ بنگلہ دیش میں محترمہ حسینہ واجد پاکستان سے نفرت و تعصب کی بنیاد اور ہندو بھارت سے محبت و اتحاد کی بنیاد پر حصول اقتدار میں کامیاب ہوئی تھی اقتدار میں آ کر وہ بنگلہ دیشی سچے مسلمانوں اور پاکستان کے لیے مودی سے بھی بدتر ثابت ہو چکی ہیں۔ 1971ء کے معاملات پر شیخ مجیب الرحمن، اندرا گاندھی اور بھٹو میں جو حتمی معاہدے ہوئے ان کو توڑ کر ان سب لوگوں کو جنہوں نے اپنی دانست میں اپنا ملک بچانے کی جدوجہد کی تھی کو آج پھانسی گھاٹوں کا سامان بنا چکی ہیں۔

آج دنیا سوچتی ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کو عبرت ناک انجام سے دو چار کرنے والی بنگلہ دیشی فوج کیوں خاموش اور غیر متعلق ہے؟ فوج نے جمہوری انداز میں بھرپور کوشش کی تھی کہ بنگلہ دیش کے عوام حسینہ واجد یا خالدہ ضیاء کو اقتدار دینے کی بجائے کسی نئے فریق کو اقتدار دے دیں مگر بنگلہ دیش کے عوام نے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی سازش اور مدد کو کامیاب ہونے دیا۔ آج فوج اسی لیے خاموش ہے کہ جو کچھ بنگالیوں نے خود بویا اب اسے خود کاٹ لیں۔ اس بنگلہ دیشی عمل میں اہل پاکستان کے لیے بھی بہت بڑا ’’سبق‘‘ ہے کہ وہ ووٹ جن کو دیتے ہیں ان کا ماضی بھول جاتے ہیں پھر جب ان کے اقتدار کی ’’لذت کشی‘‘ دیکھتے ہیں تو رونا شروع ہو جاتے ہیں اور فوج کی طرف دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ آج پاکستانی فوج اقتدار سے کوسوں میل دور ہے کہ جو کچھ خود بوتے ہوئے خود ہی اسے کاٹو، فوج البتہ کرپشن، انتہا پسندی اور ہندوستانی ایجنڈوں میں آلہ کاروں کے خلاف جہاد میں مصروف ہے۔ اب پاکستانی عوام جانیں۔ اشرافیہ اہل سیاست جانیں اور ان کی اقتدار غیر اخلاقی سیاست جانے۔ ہمارے ہاں کچھ سادہ لوح ماشاء اللہ طیب اردگان بننے کی آرزو پال رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے کتنی خوبصورت بات اپنے ساتھ کھڑے ہوئے مولانا فضل الرحمن کی موجودگی میں کہی تھی۔ یہ منہ اور مسور کی دال؟ حضور کہاں طیب اردگان جیسا صاحب علم، صاحب کردار، صابر اور عمدہ تین حکمت کار اور کہاں ہماری اشرافیہ غیر اخلاقی و گندی سیاست ؟یہ صرف لندن میں ہوتا ہے کہ پاکستانی نژاد بس ڈرائیور کے بیٹے صادق خاں کو ارب پتی اشرافیہ کے نمائندے جسے وزیر اعظم کیمرون حکومت کی مدد بھی حاصل تھی۔ زیک گولڈز سمتھ، پر فوقیت دے دیتی ہے۔ پاکستانی سیاست میں آج علامہ اقبال اور خود قائد اعظم واپس آ جائیں اور سیاست میں حصہ لینا چاہیں تو خدا کی قسم نہ مسلم لیگ نہ پی پی پی نہ پی ٹی آئی انہیں سینٹ و قومی اسمبلی کا پارٹی ٹکٹ دے گی نہ کوئی جماعتی عہدہ۔ اہل پاکستان آپ دنیا کی منفرد قوم ہیں جو قوم نہیں اصلاً تو ہجوم اور ریوڑ ہیں۔ کیا ہجوم اور ریوڑ کو کبھی مدبر، نابغہ، حکمت عملی رکھنے والا حقیقت پسند حاکم بھی ملا ہے؟ دو باتیں تاریخ ہیں (1)عوام اپنے حکمران کے نقش قدم پر چلتے ہیں(2) جیسے گناہ گار، خود غرض و مکار عوام ہوں گے ویسے ہی انہیں حکمران ملیں گے۔ خواہ وہ سیاست دان ہو یا جنرل کیا ہمیں اب عقل مند بن جانا چاہیے؟ ہجوم اور ریوڑ کی بجائے سچی اور باکردار قوم نہیں بن جانا چاہیے؟

مزیدخبریں