مذاکرات اورامریکی الیکشن

گزشتہ روز نیویارک، واشنگٹن اور میوسٹن Visit کرنے کے بعد پاکستان واپس پہنچ گیا ہوں۔ پاکستان میں ابھی تک پانامہ لیکس کا معاملہ چل رہا ہے۔ جبکہ امریکہ کے شہروں میں پاکستانی پانامہ لیکس کے ساتھ ساتھ امریکی صدارتی الیکشن میں بھی بھرپور دلچسپی کا اظہارکر رہے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے ٹرمپ کی نامزدگی یقینی ہوگئی ہے۔ جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے ہیلری کلنٹن امیدواربن جائینگی۔ ٹرمپ اور ہیلری کے مقابلے میں ہیلری کی فتح یقینی نظرآتی ہے۔ ہوسٹن کے نوجوان ووٹر تیمورخان بتا رہے تھے کہ ٹرمپ نے مسلمانوں، یہودیوں، ہندوئوںاور امریکہ میں بسنے والی دوسری قومیتوں کو ناراض کر لیا ہے جہاں تک روایتی امریکنو ں کا تعلق ہے تو وہ تقسیم ہیں اس طرح ہیلری کی فتح یقینی ہے۔ ری پبلکن پارٹی کیلئے یہ بہت بڑا اپ سیٹ ہوگا کیونکہ امریکہ کی تاریخ میں 1953 کے بعد ری پبلکن نے ایک دفعہ 1981-93میں تین ٹرم جیتی ہیں۔ امریکہ کی 228 سالہ تاریخ میں یہ 45 ویں صدرکا الیکشن ہے ۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے 20 صدر منتخب ہوئے ہیں جبکہ ری پبلکن پارٹی کے 18صدر اقتدار میں رہے۔ سب سے پہلے صدر جارج واشنگٹن8 سال صدر رہے۔ امریکہ کی کوئی پارٹی نہیں تھی اسکے ساتھ ساتھ پانچ ایسے صدر منتخب ہوئے جن کاوگ پارٹی سے تعلق تھا یا انکی بھی کوئی پارٹی نہیں تھی۔ ہیلری کلنٹن45 ویں صدربن کر ڈیموکریٹک پارٹی کے ریکارڈ میں 1953کے بعد مسلسل تیسری مرتبہ پارٹی کوکامیاب کرانے والی لیڈر بن جائینگی۔ امریکہ کی تاریخ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے روز ویلٹ واحد صدر ہیں جنہوںنے مسلسل12سال1933سے لیکر 1945 تک حکومت کی تھی ان228 سالوں میں ڈیموکریٹک پارٹی نے120سال جبکہ ری پبلکن پارٹی نے 88 سال حکومت کی ہے۔ بحرحال امریکن الیکشن کی باتیں ہرشہر میں ہو رہی تھیں ہوسٹن میں پاکستانی سوسائٹی کے صدر سے ملاقات ہوئی تو وہ کہہ رہے تھے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی الیکشن میں ووٹ کاحق استعمال کریں۔ ان کا کہنا تھاکہ پاکستانی کسی بھی صدرکے امیدوارکو ووٹ دیںہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن زیادہ ووٹ کاسٹ کرنے سے ہمیں طاقت حاصل ہوگی۔ یہ درست ہے کہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو بھرپور انداز میں امریکن الیکشن میں دلچسپی لینی چاہئے۔ پاکستان کا مفاد اسی میں ہے اور ان کا اپنا فائدہ بھی۔ الیکشن کے بعد پاکستانیوں میں ایک ہی سوال موضوع بحث رہاجس پر ہر پاکستانی جاننا چاہتا تھاکہ مستقبل میں کیا ہوگا اس پر رائے سننا چاہتا تھا۔ واشنگٹن میں مقیم ڈاکٹرمنظور اعجازکا خیال تھاکہ میاں نوازشریف کوکچھ نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب بہت بڑے دانشور ہیں بے نظیر بھٹو سمیت ہرکوئی لیڈر ان سے ملنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح واشنگٹن میں ہی مقیم خالدکھرل اور انکے برادران طارق کھرل، ریاض کھرل، ناصرکھرل بھی مسلم لیگ(ن)کو2018ء میں بھی حکومت کرنے کی باتیں کررہے تھے ۔ ایک بات پرڈاکٹر منظور اعجاز ضرور متفق ہوئے کہ "Power Wants More Power" بحرحال دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ ہوسٹن میں مصروف ریڈیوکے مالک سعیدگڈی اور بزنس مین رضوان ہاشمی حکومت جانے کی خبر سننا چاہتے تھے۔ میں نے گزارش کی کہ موجودہ حکومت بین الاقوامی پیدا کردہ بحران میں پھنس چکی ہے جس سے مظاہر نکلنا مستقل نظرآ رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف ایک طرف تو اپوزیشن کو دہشت گردوں کے برابرکا درجہ دے رہے ہیں تو دوسری طرف مذاکرات بھی کرنا چاہتے ہیں ۔ حکومتی وزیر بھی اچھی زبان استعمال نہیں کر رہا ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ جب کبھی بھی اپوزیشن احتجاج کرے توحکومت کا یہ کام نہیں ہوتا کہ مقابلے پرغلط زبان استعمال کی جائے۔ حکمران کوTeam Force نہیں کرنا چاہئے۔ اختلاف نہیں ہوتا تو پھر اپوزیشن کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ مذاکرات ہی بہترین راستہ ہوتاہے۔ ایوب خان کیخلاف تحریک چلی توگول میزکانفرنس ہوئی۔ ذوالفقارعلی بھٹوکے خلاف تحریک چلی توPNBکے ساتھ مذاکرات کئے گئے ۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں نوابزادہ نصراللہ خان کے صدرکی حیثیت سے مذاکرات کئے۔ اب تو اور بہت سارے لوگوں کے نام آ گئے ہیںاس لئے میرا خیال ہے کہ معاملہ پانامہ لیکس کے پرانے اورنئے ناموں پر ہی اکتفاء کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا جہاں تک قرضے معاف کرانے والے، ٹیکس چوری کرنیوالے اورکرپشن میں ملوث دیگر لوگوں کا تعلق ہے تواس کیلئے NAB پوری طرح متحرک ہے۔ بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ کی گرفتاری اور76 کروڑ روپے کی برآمدگی سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے البتہ ایک نقصان ہوا ہے کہ پنجاب کے جن افسروں اور لٹیروں نے گھروں میں خزانہ چھپایا ہوا تھا۔ انکو لوٹی دولت چھپانے اور اسکو محفوظ کرنے کا وقت مل گیا ہے۔ بحرحال نیب کو بلا امتیازکارروائی جاری رکھنی چاہئے اور اپنے لوگوں کو مزید متحرک رکھنا چاہئے۔ آف شور کمپنیوں میں بڑے بڑے نام آرہے ہیں جن میں ریٹائرڈ فوجی بھی شامل ہیں۔کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف اب کیاکرینگے وہ تو بلا امتیاز احتساب کے حامی تھے؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جنرل راحیل کیلئے کوئی امتحان نہیں ہوگا۔ انہوں نے حاضر جرنیلوں کیخلاف کارروائی کی ہے وہ Retdکے خلاف کاروائی کیوں روکیں گے۔ وہ تو اور خوش ہونگے کہ سب کا احتساب ہو رہا ہے پھر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کس کو جہانگیر ترین یا علیم خان سے ہمدری نہیں ان کا نام پانامہ لیکس یا آف شورکمپنیوں میں آتا ہے توکوئی یہ نہیں کہے گا کہ معاف کر دیا جائے اورنہ ہی یہ کوئی جوازہے حکومت کیلئے تویہ اچھاموقع تھاکہ احتجاج کوسڑکوں سے نکال کرپارلیمنٹ میں لے جائے۔ برطانیہ کے وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں جاکربیان دیا تھا تو وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے عمران خان پر تنقیدکرتے ہوئے کہا تھاکہ وہ برطانوی وزیراعظم کی پیری کرنا چاہتے ہیں تو سڑکوں کی بجائے پارلیمنٹ میں آ کراحتجاج کریں لیکن حکومت کے راہ فرارنے اچھا تاثر قائم نہیں کیا۔ بحرحال کوئی بھی راستہ ہو مذاکرات کے راستے کو بند نہیں کرنا چاہئے اور حکومت کو فوری طور پر مذاکراتی ٹیم بناکراپوزیشن سے TORپر اتفاق پیدا کرے۔ دیرہوگئی تو پھرکوئی کچھ نہ کرے۔ Ruthless Accountability تو آخر ہوکررہنی ہے۔

ای پیپر دی نیشن