2012ء سے امریکی حکمرانوں نے سی آئی اے کے ایجنٹ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے لئے اعلانیہ اور خفیہ ’’مذاکرات‘‘ کی مہم چلا رکھی ہے کیونکہ سی آئی اے اسامہ بن لادن آپریشن کا ’’سہرا‘‘ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی ’’ٹھوس اطلاعات‘‘ کے سر باندھتا ہے۔ اہم ترین بات یہ کہ سی آئی اے اپنی شدید ہزیمت اور ساکھ کے لئے زخمی سانپ کے مانند تڑپ رہاہے۔ وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں اسکے خفیہ آپریشن کیلئے ’’ایجنٹ‘‘ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی میں سی آئی اے کی ناکامی پر اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ ’’سپرپاور‘‘ کی یہ بے بسی ایک جگ ہنسائی ہے جس کا کریڈٹ ہمارے خفیہ اداروں کو جاتا ہے اور کسی حد تک حکمرانوں کو بھی! جرنیلوں نے اب تک غدارِ وطن کو رہا نہ کرکے امریکی دبائو اور خفیہ ہتھکنڈوں کو ناکام بنایا ہے۔ صدر، وزیراعظم اور جرنیل 2012ء سے ایک ہی موقف رکھتے ہیں لیکن امریکہ کا دبائو برقرار ہے اور اس میں مزید شدت لانے کیلئے پاکستان کو ’’بلیک میل‘‘ کرنے کی حکمت عملی بنائی اور چلائی جانے کے اشارے مل رہے ہیں۔ طے شدہ معاہدے میں روڑے اٹکاتے ہوئے ایف16- جنگی طیاروں میں امریکی مالیاتی تعاون میں نئی پابندیاں اورشرائط بذریعہ کانگریس نافذ کی جارہی ہیں۔ 43 کروڑ ڈالرز کی رقم کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔ دوسری طرف 2016ء تا 2017ء کے لئے 450 ملین ڈالرز کی بھاری رقم کے بل کی منظوری بھی کھٹائی میں ڈالی جارہی ہے۔ اس رقم کی فراہمی کوشمالی وزیرستان میں ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کی محفوظ پناہ گاہوں (امریکی پروپیگنڈہ) کی مکمل تباہی تک کے آپریشن سے مشروط کیا جارہاہے جس کا تصدیقی سرٹیفکیٹ امریکی وزیر دفاع جاری کریگا۔ تیسری جانب ریپبلکن امیدوارڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیانات میں جارحانہ پن نمایاں ہورہاہے جو پاکستان سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کودو منٹ میں رہا کرانے کا دعویٰ کررہے ہیں اور صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے لئے 10 ہزار امریکی خصوصی فوج افغانستان میں رکھنے کا اعلان کررہے ہیں۔ یہ حیران کن پالیسی ہے صدر اوباما نے تو آج تک افغانستان میں امن، طالبان مخالف حکومت اور دنیا کو مستقبل میں ممکنہ دہشتگردی سے بچانے کیلئے 11 ہزار کے قریب امریکی افواج رکھنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ ریپبلکن ٹرمپ نے اپنے شیطانی عزائم چھپانا بھی ضروری نہیں سمجھا اور پاکستان کو دنیا میں ایک ’’مسئلہ بنانے‘‘ والے ملک کے طور پر پیش کیا ہے جو شرمناک ہے کیونکہ پاکستانی ایٹمی پروگرام کم از کم سلامتی کے ڈیٹرنس کے طور پر جاری ہے اور غلطیوں سے پاک اعلیٰ ترین سکیورٹی حصاروں میں ہے۔ ’’جنتی روح‘‘ جنرل (ر) حمید گل کا وژن 2000 سے ہی یہ رہا کہ امریکہ کا افغانستان میں قبضے کا مقصد ’’ستمبر 2011 بہانہ، افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان (ایٹمی پروگرام) نشانہ‘‘ ہے۔ اگر امریکی صدر ٹرمپ بن جاتا ہے تو پاکستان کیلئے ’’مودی ٹرمپ‘‘ شیطانی ٹولہ باہم مل کر سنجیدہ مسائل کھڑے کرسکتا ہے کیونکہ ٹرمپ کا ’’ذہن اور سوچ‘‘ جارحانہ ہے لیکن صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اصل پالیسیوں کا معلوم ہوگا ابھی تو ’’ووٹ سمیٹو‘‘ پاپولر سیاست کررہا ہے لیکن پاکستان کے حکمرانوں، اعلیٰ دفاعی حکام، پارلیمنٹ کو ممکنہ امریکی خارجہ پالیسی تبدیلی کے مستقبل میں نافذ ہونے سے پہلے پاکستانی قومی مفادات، سٹرٹیجک چیلنجوں، دفاعی و اقتصادی ناگزیر ضروریات پر مبنی پالیسی وضع کرنا ہوگی کہ ’’اچانک‘‘ کوئی ’’پہاڑ‘‘ سر پر نہ آگرے۔ افغانستان، روس، ایران، بھارت، چین سے قومی سلامتی و دفاع کیلئے نپے تلے اور کمزوریوں سے پاک فیصلے کرنا ہوں گے۔ کہیں کوئی غلط سمت یا پالیسی سرزد ہوئی تو نقصان زیادہ ہوگا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی 23 سال کی قید اور عدالتی اپیل کا ’’حساس معاملہ‘‘ بہت سوچ بچار اور درست درست اندازے کا ہے۔ دشمن ایجنسی کے جاسوسوں کی رہائیاں ماضی میں بھی سول حکمران اور فوجی جرنیلوں کے احکامات پر ہوتی رہی ہیں جیسے کشمیر سنگھ، جنرل مشرف کے بزدلانہ فیصلے کا شاہکار ہے۔ انتہائی شرمناک!!
امریکہ کے ایف 16 کے سودے کو خراب کرنے کے ممکنہ اقدامات، ٹرمپ کے فتنہ انگیز خیالات، ڈاکٹر شکیل آفریدی غدارِ پاکستان کی گندی ’’بلیک میلنگ‘‘ سیاست کاری پر وزیر داخلہ اور مشیر خارجہ کے سخت اور مناسب موقف سامنے آئے ہیں۔ ماضی میں بھی امریکہ سے ’’گرم سرد‘‘ تعلقات رہے ہیں، کبھی کیری لوگر بل، سلالہ چوکیوں پر جنگی جرائم والے امریکی حملے، ڈرون حملے، نیٹو سپلائی روکنا، ریمنڈ ڈیوس، پاکستانی امدادوں میں تاخیری حربے، دفاعی سامان میں رکاوٹیں!! یہ گزشتہ 9 سال کی تاریخ ہے۔ بڑی وجہ صرف صرف امریکہ کا پاکستان کو خودمختار ایٹمی ریاست اور ’’پارٹنر‘‘ کے بجائے ’’کیرٹ اینڈ سٹک‘‘ گاجر اور چھڑی والی ریاست سمجھنا ہے۔ اگر امریکی صدر اور سی آئی اے اس گھٹیا پالیسی کو تبدیل نہیں کرتے تو ’’دوستانہ تعلقات‘‘ اور مفادات خطرات میں رہیں گے۔