عدم برداشت ایک منفی رویہ

کچھ دن پہلے ایک جگہ محفل سجی تھی اور سبھی احباب پڑھے لکھے اور بلند خیالات کے حامل تھے جن کا یہ معمول تھا کہ وہ مختلف موضوعات پر مکالمہ کرتے اور اپنی رائے دیتے لیکن گزشتہ دنوں اس محفل میں یہ سوال ایک دوست کی طرف سے اُٹھایا گیا کہ قوم میں سیاسی شعور ختم ہو چکا ہے ،مزید برآں اس پر بہت سے دلائل اور قضیے پیش کیے گیے۔ایسے ہی سوالات کا سامنا ہمیں اکثر و بیشتر میڈیا پر ہونے والے ٹاک شوز میں ملتا ہے کہ ہماری قوم میں سیاسی شعور ختم ہو چکا ہے جس سے مسائل میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔میرا یہ سوال ہے کہ کیا صرف گروہی سیاست ہی ہمارا اولین مس¾لہ ہے؟؟ باقی مسائل پر بات کرنا اور اُن مسائل کی طرف اشارہ کرنے سے ہم غیر شعور یافتہ یا غیر مہذب کہلاتے ہیں؟؟اخر ایسا کیوں ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں بڑے منظم طریقے سے اس بند گلی میں داخل کر دیا گیا جہاں ہمیں سیاست کے علاوہ کسی بھی موضوع پر بات کرتے ہوئے مشکل پیش آتی ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قوم میں سیاسی شعور ختم ہو چکا ہے تو میرے نزدیک یہ سوال کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔کیونکہ اس بات کی دلیل یہ سے کہ ہر چوراہے پر ہر شادی بیاہ کے پروگرامز پر ہرغمی خوشی کے تہواروں پر ہمیں اسی موضوع یعنی میری مراد (سیاست) پر گفتگو سننے کو ملتی ہے کیا سے سیاسی شعور نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارا ہر طبقہ اس سیاست ہر اپنی راے زنی کرتا ہے اور اچھے بُرے کی تقسیم چند لمحات میں پیش کر کے اپناسیاسی شعور واضح کر دیتا ہے،
غرض سیاسی شعور عوام میں بہت زیادہ ہے اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے بلکے ان رویوں کی فکر کرنی چاہیے جن سے ہماری نسل میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور ان میں سے اہم رویہ عدم برداشت ہے،سیاسی بحث مباحثے میں ہم لوگ جس طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں اور جس طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں اور جسکی ہر گفتگو کا اختتام لڑائی جھگڑے اور گالی گلوچ پر ہو وہ قوم سیاسی طور پر تو شعور یافتہ ہو سکتی ہے پر انسانیت کی حد تک وہ غیر مہذب اور غیرشعوریافتہ ہی کہلائے گی۔
سیاست ہو یا مذہب،ہم اختلا فات یا مخالفت برداشت کرنے کو تیار ہی نہیں ،اور فوری ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے حد سے گزر جاتے ہیں۔یہ صورتحال ہمیں اکثر دیکھنے کو ملتی ہے کہ عدم برداشت کی وجہ سے لوگوں کے درمیان فاصلے بڑتے چلے جارہے ہیں۔اور ہمارا معاشرہ اس وقت ایک ایسے موڑ کی طرف رواں دواں ہے جہاں اپنی بات کو سچ اور دوسرے کی بات کو جھوٹ سمجھا جاتا ہے جس کی روشن دلیل موجودہ سیاسی بحران ہے جس کی بنا پر کس کس طرح کے الزامات اور زبان استعمال کی جاتی ہے جس کا اثر برائے راست طور پر ہماری نوجوان نسل پر پڑھتا ہے۔سیاست میں عدم برداشت کے رویہ میں اس بڑھاﺅ کا ذمہ دار ہمارا آزاد میڈیابھی ہے جو ریٹنگ کے چکر میں ایسے سیاسی ٹاک شوز کرتے ہیں جود نیا کے سامنے ہمارا سیاسی شعور اجاگر کررہا ہے جس کا اختتام ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور برُا بھلا کہنے پر ہوتا ہے۔بد قسمتی یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جہاں کوئی بھی روک ٹوک نہیں ہے اور نہ ہی کسی قسم کے قوانیں کا موثر اطلاق ہوتا دکھائی دیتا ہے۔اسی لیے ہمارے ہاں لوگ ہر طرح کی معاشرتی و اخلاقی اقدار کو پامال کرتے ہوئے مخالف نقطہ نظر رکھنے والے کو گھٹیاں پن کی آخری حدوں کو چھوتے نظر آتے ہیں۔
انہی وجوہات کی عملی تصویر ہمیں مردان یونیورسٹی میں ہونے والے حادثے سے ملتی ہے اور اسی عدم برداشت کی بنا پر جامعہ پنجاب میں کئی دن تعلیمی ماحول ناسازگار رہا،ساتھ ساتھ مذہبی طور پر بھی ہماری حالت سب کے سامنے ہے جہاں مذہبی راہنماں ایک دوسرے کے فرقے کے بارے میں عدم برداشت کا درس دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی حال اب ہمیں اقلیتوں کے حوالے سے بھی دیکھنے کو ملتا ہے،دیگر مذاہب کے خلاف عدم برداشت اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے حالانکہ ہمارا مذہب اسلام تو امن کا دین کہلاتا ہے اور سب سے بڑھ کر اسلام ہمیں صبرو تحمل برداشت و رواداری کا درس دیتا ہے۔تشدد ،عدم برداشت اورانتہاپسند رویوں نے ہماری پوری دینا کے سامنے رسوائی کا ساماں کیا ہے۔
اور پوری دینا کے سامنے ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے اور ہم ایک انتہا پسند معاشرے کے طور پر جانے جا رہے ہیں۔دنیا ہمیں غیر مہذب قوم سمجھتی جارہی ہے اور ہم پر عالمی انسانی قوانین کی پاسداری نہ کرنے پر قطعہ تعلق کر ہی ہے۔اس تشویشناک صورتحال میں ہر شخص کو اپنی اپنی ذاتی سطح پر اپنامحاسبہ کرنا ہو گا اور اپنے اندر صبر وتحمل ،برداشت اور رواداری جیسے اوصاف پیدا کرنے ہونگے جب تک ہم معاشرے میںبڑھتی ہوئی عدم برداشت کے خلاف مورچہ زن نہیں ہوں گے اور اس کے تدراک کے لئے ہر سطح پر لائحہ عمل مرتب نہیں کریں گے یہ ناسور پھیلتا جائے گااور معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کرتا رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن