صوبوں میں پانی کی تقسیم 1991ء ایکٹ کے تحت نہیں ہورہی: چیئرمین ارسا

اسلام آباد (آن لائن+ نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے پانی و بجلی میں چیئرمین ارسا نے اعتراف کیا کہ صوبوں کو پانی کی تقسیم 1991ء کے ایکٹ کے تحت نہیں ہورہی، 2003ء سے پانی ادھار لینے کی پالیسی چل رہی ہے ملک میں پانی اکٹھا کرنے کی گنجائش 30 فیصد کم ہوگئی ہے اور آبادی بڑھنے کے ساتھ ہی پانی کی مانگ میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے کمیٹی نے پانی کے لائن لاسز بڑھنے پر بھی شدید الفاظ میں برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ سندھ کے لائن لاسز 30 ہزار کیوسک ہیں حالانکہ لاسز صرف 15 ہزار کیوسک ہونے چاہئیں کنونیئر کمیٹی نواب یوسف تالپور نے کہا کہ پانی ادھار لینے کی پالیسی بند کی جائے، سندھ میں اب بھی پچاس فیصد نہریں بند پڑی ہیں اور ارسا معاہدے کے تحت کام کرے۔ کمیٹی نے پانی کی تقسیم کے حوالے سے معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھانے کی سفارش کردی۔ سی ای او لیسکو نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ریجن میں 170 سے زائد فیڈرز پر ریکوری کی شرح 20 سے 30 فیصد تک ہیں اور بجلی چوری کی وارداتیں عام ہیں ریجن میں صارفین کے ذمہ 63 ارب روپے سے زائد کے جوابات ہیں۔ دریں اثناء قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی آئی ٹی کا کیپٹن (ر) محمد صفدرکی زیر صدارت اجلاس ہوا، پی ٹی اے نے اجلاس کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر 39 سو شکایات موصول ہوچکی ہیں۔ ان شکایات میں لوگوں نے نوکری کی درخواستیں بھی بھیجی ہیں۔ سوشل میڈیا سائٹس کے آپریٹرز کچھ شکایات پر کارروائی نہیں کرتے۔ ویب سائٹس آپریٹرز کو گستاخانہ مواد سے متعلق تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔ مئی اور جون میں فیس بک اور دیگر آپریٹرز پاکستان آرہے ہیں۔ گستاخانہ مواد اپ لوڈ کرنے والے 4 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار چار افراد میں سے 2 کراچی کے رہائشی تھے۔ ایک گرفتار شخص جھنگ اور ایک راولپنڈی کا رہنے والا ہے۔ ایف آئی اے نے گستاخانہ مواد سے متعلق کارروائیوں پر ان کیمرہ بریفنگ کی درخواست کی۔ حساس معاملہ ہے میڈیا کے سامنے بیان نہیں کیا جاسکتا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...