پاکستان میں سیلابوں سے اب تک آٹھ ہزار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان سیلابوں سے مجموعی طور پر پاکستان کو 60 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اربوں روپے مالیت کے مویشیوں کا نقصان اسکے علاوہ ہے۔ یہ دعویٰ ممتاز سائنسدان اور سابق صوبائی وزیر آبپاشی خیبر پی کے ہمایوں سیف اللہ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ ”موسمیاتی تغیر اور پانی کا بحران“ میں کیا ہے۔
کالا باغ ڈیم کو عموماًپانی کی کمی بیشی پر قابو پانے اور بجلی کی پیداوار کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔آبی ماہرہمایوں سیف اللہ نے اپنی تحقیق میں اسکی مزید کئی پہلوو¿ں سے افادیت بھی واضح کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ سوئٹزرلینڈ کے ایک کمشن نے تربیلا ڈیم پر اپنی ایک سٹڈی میں انکشاف کیا تھا کہ تربیلا ڈیم دریائے سندھ میں آنےوالے طوفان کو 16 فیصد تک ریگولیٹ کرتا ہے۔ اگر دریائے سندھ پر کالاباغ ڈیم اور بھاشا ڈیم تعمیر کر لیں تو دریائے سندھ میں سیلاب کو ساٹھ فیصد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان پر مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں فوری طور پر کالا باغ‘ بھاشا اور دوسرے ڈیم بنانا چاہئیں۔ یقینا کالا باغ ڈیم مسئلہ نہیں ہے بلکہ بہت سے مسائل کا حل ہے۔آج ہمیں زیر زمیں پانی کی بھی قلت کا سامنا ہے اور یہ قلت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ایک ممتاز عالمی آبی ماہر ڈیو ایل فلٹرس نے اپنی کتاب ”پانی کی سیاست“ میں لکھا ہے کہ سپین نے 1950 ءاور 2000ءکے درمیان ہر سال 20 ڈیم تعمیر کئے۔ جس سے سپین میں زیرزمین پانی کی سطح دوگنی ہو گئی۔گزشتہ روز ہی یہ پریشان کن خبر شائع ہوئی کہ سندھ میں پانی کی کمی آم کی پیدوار کیلئے تباہ کن ثابت ہورہی ہے،یہ صورتحال سندھ کی اس سیاسی اشرافیہ کےلئے لمحہ¿ فکریہ ہونی چاہیے جو کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر اپنی سیاست چمکا رہی ہے۔ کالاباغ ڈیم کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ اتفاق رائے کا واویلا تو کیا جاتا ہے مگر اس طرح کبھی پیشرفت نہیں ہوئی۔ کالاباغ ڈیم کی مزید تاخیر اربوں ڈالر سالانہ نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ ان حالات میں مشترکہ مفادات کونسل کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔