مجھے اکثر بڑے بڑے جلسے سننے کا شوق رہا ہے جب بھی کسی جلسے میں جاتا تو میرا ذہن یہ سوچتا کہ آج کے جلسے میں لیڈر کو یہ باتیں کرنی چاہئیں اکثر ایسا ہوا کہ بھٹو صاحب کے جلسے میں انہی موضوعات پر گفتگو کی جاتی تھی جو پہلے سے میرے ذہن میں ہوتے تھے۔ عمران خان نے تقریباً ایک مہینہ پہلے 29 اپریل کو تاریخی جلسہ مینار پاکستان پر کرنے کا اعلان کیا تھا اس جلسے کی پورے پاکستان میں تیاری زور و شور سے جاری رہی ۔ میرے مشاہدے کے مطابق یہ پہلا جلسہ تھا جس میں تمام مقررین نے سنجیدہ گفتگو کی ۔ عمران خان نے اس جلسے میں دو گھنٹے خطاب کیا۔ شروع میں انہوں نے اپنی ذات کے حوالے سے یہ بتایا کہ کس طرح زبردست جدوجہد کے بعد انہوں نے کرکٹ ورلڈ کپ سے لے کر شوکت خانم کینسر ہسپتال، نمل یونیورسٹی کا سفر کامیابی سے طے کیا۔ عمران خان کی یہ بات کہ نہ تو وہ شکست مانتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی دباﺅ یا لالچ میں آکر اپنے طے شدہ پروگرام سے پیچھے ہٹتے ہیں یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا پھر انہوں نے اپنے 11 نکاتی ایجنڈے پر بات کرنے سے پہلے ملک کے سنگین معاشی مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی کہ 6 ہزار ڈالر سے بڑھ کر 27 ہزار ڈالر تک قرضے کا ذمہ دار کون ہے؟ اور کس کے دور میں کتنا قرضہ چڑھا صاف ظاہر ہے کہ تاجر وزیراعظم کے دور میں جس طرح اداروں کی لوٹ سیل ہوئی، ایئرپورٹ اور دوسرے اہم قومی اثاثوں کو گروی رکھ کر قرضہ لیا گیا اور یہاں تک عوام کو بتایا گیا کہ پاکستان میں ہر نیا بچہ جو پیدا ہوتا ہے وہ ایک لاکھ 30 ہزار روپے کا مقروض ہوتا ہے۔ آج کے پاکستان میں لوگ غربت بیماری کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں اس کے بعد عمران خان نے 11 نکاتی ایجنڈے کا ذکر کیا، سینکڑوں مسائل میں گھرے ہوئے ملک کو 11 نکات کے ذریعے نکالنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ نکات کی ترجیحات پر غور کیا جا سکتا ہے مثلاً تعلیم سب کیلئے ایک نصاب ایک کتاب اس وقت پاکستان میں انگلش میڈیم، امریکن آسٹریلین اور دوسرے ملکوں کے سلیبس بچوں کو پڑھائے جا رہے ہیں اور والدین سے بھاری معاوضہ وصول کیا جا رہا ہے۔ 8 لاکھ بچے جب فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو وہ اس معاشرے کے لئے اَن فٹ ہوتے ہیں چنانچہ ان کی ایک بڑی تعداد ملک سے باہر چلی جاتی ہے اس طرح ریاست کو بھاری نقصان پہنچتا ہے، دینی مدرسے اور دوسرے تمام اسکولوں میں پڑھنے والے تمام بچوں کے لیے ایک ہی نصاب ہونا چاہیے تاکہ قوم کی درست سمت میں تشکیل ہو سکے پھر پچاس لاکھ سستے گھروں کی تعمیر اس میں کوئی شک نہیں کہ مکان ہر آدمی کی ضرورت ہے اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جائے تو بڑی تعداد میں غریب عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ ہیلتھ انشورنس اور پانچ لاکھ روپے تک ایک فیملی کو علاج کرانے کی سہولت بذریعہ کارڈ یہ بھی آج کے دور میں بہت غنیمت ہے ویسے تو علاج اور صحت کی سہولیات سارے ملک میں ہر پاکستانی کے لیے ایک جیسی اور مفت ہونی چاہئیں۔ عمران خان ٹیکس نظام کو بہتر بنانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے CBR وغیرہ کو ٹھیک کرکے 8 ہزار ارب روپے ہر سال جمع کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے لیکن اس کے لئے عوام کی طاقت اور آہنی ہاتھوں کی ضرورت ہے اسی طرح نیب کو مضبوط کرکے کرپشن کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے جو فیصلہ کیا اس فیصلے کی جس طرح مٹی پلید کی جا رہی ہے۔ مفاد پرست، کرپٹ، بے ایمان نانہاد اشرافیہ اپنی زندگی اور موت کی لڑائی لڑنے کے لیے میدان میں آچکی ہے اس کا مقابلہ پاکستانی قوم نے اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کے ہتھیار سے کرنا ہے اور عمران خان جیسے صاف ستھرے سچے اور کھرے انسان کو موقع ملنا ضروری ہے۔ زرعی ایمرجنسی کی بات بھی بہت اہم ہے 70 سال گزر گئے زراعت پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں ہے لیکن آج بھی کسان بدحال ہے زرعی مافیا نے لاکھوں ایکڑ زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے اور ہر قسم کے ٹیکس کی چھوٹ اور سبسڈی لینے میں سب سے آگے ہیں اور ایک پیسہ ٹیکس دینے کو تیار نہیں انہیں لگام دینے کی سخت ضرورت ہے۔ ٹور ازم کے ذریعے بے روزگاری کو ختم کرنے کا عزم بھی قابل عمل ہے۔ پاکستان میں بے شمار خوبصورت مقامات ایسے موجود ہیں جہاں ٹورسٹوں کے پہنچنے کے لیے سہولیات میسر نہیں جہاں تک وفاق کومضبوط کرنے کی بات ہے وہ بھی ایک منصوبے کے تحت رضا ربانی صاحب نے 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں ترمیم کرکے وفاق کو کمزور بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ مجیب رحمن کے نکات سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ ماحول کو بہتر بنانے اور دس ارب درخت لگانے سے یقینا پاکستان کا ماحول بہتر ہوسکتا ہے لیکن اس کے لئے پوری قوم کو متحرک کرنا ہوگا۔ انصاف اور پولیس کے نظام کو بہتر بنائے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔حضرت علی ؓکا فرمان ہے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔ یوں تو بے شمار اور مسائل ایسے ہیں جن پر اس کے بعد قابو پایا جاسکتا ہے۔ جیسے پانی کا مسئلہ، کشمیر کا مسئلہ، سرحدوں پر بھارت کی آئے روز گولہ باری اور سب سے بڑا آبادی کا مسئلہ، دیکھتے ہی دیکھتے 8/9 کروڑ سے بڑھ کر آبادی 22 کروڑپر پہنچ چکی ہے کوئی منصوبہ بندی، ترقی کے لیے کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ان مسائل پر توجہ نہ دی جائے۔ عمران خان کی یہ تقریر پوری توجہ سے سُنی گئی، ظاہر ہے سیاسی مخالفین کو کیسے پسند آتی ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں شور مچانے کی ز یادہ وجہ وہ منصوبے ہیں جن کے تحت ملک کو لوٹا اور برباد کیا جا رہا تھا وہ سارے منصوبے اب ہاتھ سے نکلتے نظر آ رہے ہیں ۔ الیکشن قریب ہے الیکشن کمیشن اور ذمہ دار اداروں کو وقت کی نزاکت کو سمجھنا ہوگا الیکشن کو صاف و شفاف ہر قسم کی دھاندلی سے پاک کروا کر اپنا قومی فریضہ ادا کرنا ہوگا تاکہ دھاندلی کے ذریعہ برسراقتدار آنے والے مٹھی بھر لٹیروں سے نجات ملے۔ 2018ءکا الیکشن پاکستان کی نئی تاریخ رقم کرے گا۔ جمہوری آمریت سے نجات ملے گی۔ جمہوری انقلاب کا آغاز ہوگا۔ انشاءاللہ!