خلائی مخلوق۔ خلائی مخلوق‘ خلائی وسعتوں تک زمین سے آنے والی بازگشت کی لہروں کے ذریعے موصولہ سگنلز میں یہ جملہ سن سن کر اس کے کان پک گئے تھے‘ خلا ¿میں تیرنا کوئی جرم ہے؟ اب اس میں ہمارا کیا قصور کہ ہم خلا ¿ میں پیدا ہوئے اور یہاں تیر تیر کر اپنی زندگی تمام کر دیتے ہیں۔ اس نے سوچا زمین والوں سے ہمارا لینا دینا بس اتنا ہی ہے کہ ہمہ وقت ہم ان کے اچھے برے کام اوچان سے دیکھتے رہتے ہیں‘ ان پر طنز کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی سرزنش‘ بس دیکھ دیکھ کر کڑھتے ہیں‘ ان کی حرکات و سکنات اور فرمودوں پر ۔بغیر سوچے سمجھے باتیں کرنا‘ توہمات اور کلیشے بنانا زمین والوں کی جبلت میں شامل ہے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ جو چاہے ان کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ اب دیکھیں صدیوں سے اردو ادب بالخصوص شاعری میں ہمیں بدنام کیا جا رہا ہے‘ تمام کلاسیکل شعراءکی غزلوں اور دیگر شعری اصناف میں تمام مصیبتوں کو خلاء(فلک) سے نازل ہوتا ہی بتایا گیا ہے‘ اردو کے کلاسیکی شاعر جب ”پیر فلک“ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ ساری صعوبتیں اس کی وجہ سے ہی ہیں‘ تو بہت عجیب لگتاتھا اور ذرا لہجہ دیکھئے کہ اے ”پیر فلک“ اگر یہ مصیبتیں تو اہل زمین پر نازل نہ کرتا تو تیرا کیا جاتا ؟ اس جمالیاتی پیرائے کے باوجود خلائی مخلوق ہونے کے باوصف ہمارے سینے پر سانپ لوٹنے لگتے ہیں‘ بھلا اس میں ہمارا کیا قصور؟ یہ ساری مصیبتیں زمین والوں کا اپنا کیا دھرا ہے‘ لیکن دوش ہم پر؟ یہ بھی کوئی انصاف ہے؟ وہ اپنی دھن میں مسلسل سچ بولتا چلا جا رہا تھا اور ہاں خلائی مخلوق ہونے کے ناتے اس کے ذہن میں یہ بات راسخ تھی کہ وہ جو کہتا ہے سچ اور حقیقت ہوتی ہے‘ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ خلائی مخلوص سالوں سے سلیپنگ آرڈر میں تھی‘ زمین والوں نے طنزیہ تیر چلا چلا کر انہیں جگا دیا‘ شاعری اور نثر کے علاوہ تقاریر اور سیاسی گفتگو کے ذریعے بھی۔ زمین پر جو انہونی ہوتی وہ خلائی مخلوق کے ذمہ لگا دی‘ اپنے انداز نہ دیکھے‘ پاناما سے اقامہ نکالتے رہے‘ ایبٹ آباد کمیشن سے کچھ نہ نکلا‘ بے نظیر شہیدہ کے کیس کو چھلاوہ بنا دیا‘ پرویز مشرف کو آئین پامال کرنے کے باوجود نیاز کا دانہ قرار دے دیا‘ کس کس قضیے کا نام لیں؟ اور جب کچھ نہ بنا تو خلائی مخلوق کا نام آ گیا‘ وہ گویا خواب اور بیداری کے مابین کسی کیفیت میں یہ ساری باتیں کر رہا تھا‘ زمین پر ہوتا تو اسے مجذوب کی بڑ قرار دیا جاتا‘ دفعتاً اسے یاد آیا کل ہی ایک خلائی سیارہ زمین والوں کے بطن سے نکل کر اس کے قریب سے گزرا تھا‘ اس نے سیارے کے اندر جھانک کر دیکھا تو کوئی خلاباز اس میں موجود نہ تھا۔ وہ مدتوں سے اس ایک موقع کی تلاش میں تھا کہ کبھی یہاں سے گزرنے والے کسی سیارے میں اسے انسان مل جائے اور وہ اس سے جی بھر کر مکالمہ کرے‘ گلے شکوے ہوں‘ زمین والوں اور خلائی مخلوق کے مابین جو مکالمہ مدتوں سے رکا ہوا ہے‘ وہ اسے جاری و ساری کرنا چاہتا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ زمین کے باسی مکالمے کے جمود کو انسان کی فکری و نظری موت قرار دیتے ہیں‘ وہ اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہتا تھا کہ آیا زمین والے جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں‘ اگر ایسا نہیں تو وہ اہل زمین کے لئے کوئی پیغام بھجوانا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا خلائی مخلوق اور زمین کے باسیوں کے مابین غلط فہمیوں کا تدارک کیا جائے کیونکہ گلیکسی کا سارا نظام ان کی باہمی رقابت دور کرنے سے ہی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ خلائی مخلوق بھی اللہ کریم کی پیدا کردہ ہے‘ اس کی زندگی کے اپنے تقاضے اور لوازمات ہیں‘ زمین والوں کی طرح یہ مخلوق اپنے کام کے علاوہ دیگر امور ہاتھ میں لینے سے احتراز کرتی ہے‘ خلائی مخلوق اہل زمین کی طرح نہیں کہ ہر معاملے میں پنگا لینا شروع کر دے‘ وہ تو بس اپنے حصار میں رہتی ہے‘ زمین کے باسیوں کی طرح نہیں‘ جو خلائی مخلوق کو اپنا حریف سمجھ بیٹھے ہیں اور ان سے خائف رہتے ہیں۔ وہ خلا میں تیرتے ہوئے باتوں پر باتیں کئے جا رہا تھا اور زمین سے آنے والی لہروں کے دوش پر اسے سگنلز بھی موصول ہو رہے تھے۔ وہ چاہتا تو خلاءکی اتھاہ وسعتوں سے کود کر تھوڑی دیر کے لئے زمین پر آ رہتا لیکن وہ کوئی ضیاءالحق یا پرویز مشرف تھوڑی تھا‘ اسے معلوم تھا زمین پر کودنے والے پھر اس کے سحر میں کھو کر رہ جاتے ہیں‘ کسی جادوئی کیفیت کا شکار ہو کر اپنا زمینی قیام بڑھاتے رہتے ہیں‘ وہ جبلتاً صرف اپنے حصے کا کام کرنا چاہتا تھا‘ دوسروں کے کام میں مداخلت اس کی سرشت میں ہی نہیں تھی۔ اسے پہلے بھی متعدد مرتبہ زمین پر کودنے کے مواقع ملتے رہے لیکن وہ تو زمین پر رہنے والوں کا محافظ تھا اور بدستور اپنے فرائض منصبی ادا کرتے رہنا چاہتا تھا لیکن دوسری جانب زمین پر رہنے والے بھی اپنے کام میں لگے ہوئے تھے‘ ہر انہونی اس کے نام کر دیتے تھے اور اس کام میں زمینی نظام چلانے والے سیاستدان سب سے پیش پیش تھے۔
پھر اس نے یہ بھی سوچا اور غور کیا کہ زمین سے آنے والے سگنلز میں اس کے اصل نام کے بجائے اسے خلائی مخلوق کے نام سے کیوں پکارا جاتا ہے؟ پھر اسے یہ بھی یاد آیا کہ اس کے اردگرد بہت سے منصف اور عادل بھی خلائی مخلوق کے پیرائے میں تیر رہے ہیں۔ یہ سب اپنے اپنے کام سے لگے ہوئے ہیں۔ وہ سوچنے لگا جب خلائی مخلوق میں ہر کوئی اپنا اپنا کام بطریق احسن کر رہا ہے تو پھر زمین والوں کو شکایت کیا ہے؟ ہم سب کے کچھ اصل نام بھی تو ہیں‘ ان ناموں سے ہمیں کیوں پکارا نہیں جاتا؟ خلائی مخلوق کا طعنہ کیوں دیا جاتا ہے؟ وہ یہ سوچتے سوچتے خلاءمیں ہی سو گیا‘ جب آنکھ کھلی تو زمین سے کافی تعداد میں سگنلز آئے پڑے تھے۔ اس نے ان پر نگاہ ڈالی تو ان میں زیادہ تر سیاستدانوں کے تھے۔ ووٹ کی عزت کرو‘ مجھے کیوں نکالا؟ اور جانے کیا گیا .... وہ کسی نتیجے پر پہنچنے والا ہی تھا کہ زمین سے ایک اور سگنل آ گیا۔ خلائی مخلوق بھی ہمارے وجود کا ایک اٹوٹ انگ حصہ ہے‘ ہم ایک ہی گلیکسی کے رہنے والے ہیں‘یہ جملہ کسی دانشور نے کہا تھا۔ پھر اس کے ذہن کی باریکیوں پر کسی انجانی آواز نے دستک دی۔ کیا سیاستدان اور حکمران سب سے کمزور دل اور ناتواں اعصاب کے مالک ہیں جو خلائی مخلوق کا اصل نام نہیں لیتے۔ ہاں وہ کلیشے بناتے ہیں‘ اندازوں اور اشاروں کی زبان بولتے ہیں۔ انہیں کم حوصلہ نہیں ہونا چاہئے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک زندہ حقیقت اس کے دل پر جاگزیں ہو گئی‘ سیاستدان بھی زمین کے رہنے والے اور اس کے جملہ تقاضوں کے پاسدار ہیں۔ وہ اگر خلائی مخلوق کا اصل نام نہیں لیتے تو یہ ان کی حب الوطنی کا تقاضا ہے‘ وہ اشاروں میں باتیں دو وجوہات کی بنا پر کرتے ہیں۔ ایک خود اپنے وجود کے ایک حصے کی توقیر ان پر واجب ہے اور دوسرے جب مکالمہ جامد ہو جائے اور زبان پر قدغن لگ جائے تو وہ کیا کریں؟ کھل کر بات کیسے کریں؟ وہ چاہتے ہیں مکالمہ اس انداز سے جاری و ساری ہو کہ پھر انہیں کسی بھی مقتدر ادارے کے سامنے توہین کے الزام میں پیش نہ ہونا پڑے لیکن خلائی مخلوق ہونے کے باوصف اس کی سوچ میں یہ بات بھی تھی کہ اہل زمین اور بالخصوص لیڈر‘ سیاستدان اور ہر مقتدر شعبہ زندگی کے خواص کو شائستگی اور متانت کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے کہ اس طرح زمینی اور خلائی مخلوق میں بعد کم سے کم ہو سکے گا۔