پاکستان کو 1971 ءمیں گھنا¶نی سازش کے ذریعے دو لخت کر کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوانے والا بھارت آج بنگلہ دیش کی جغرافیائی شناخت کے درپے ہے جس کیلئے پہلے تو بنگلہ دیش کو دو قومی نظریہ کے اثرات سے نکالنے کیلئے وہاں حسینہ واجد کے ذریعے یہ کہہ کر اسلام پسندوں کےخلاف کارروائیوں کو آگے بڑھایا گیا کہ بنگلہ دیشیوں کے ذہنوں سے پاکستانیت کو کھرچنے کیلئے ملک کو لادین ریاست کے رنگ میں ڈھالنا ضروری ہے۔ اس مقصد کیلئے حسینہ واجد نے عدالتی سہارا لےکر 1971 ءمیں پاکستان کی حمایت کرنےوالے جماعت اسلامی کے ان ضعیف و بزرگ لیڈران اور کارکنوں کو پاک فوج کا ساتھ دینے کی بنیاد پر پھانسیوں پر لٹکانا شروع کیا جو بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد اسکے قیام کو تسلیم کر چکے تھے۔ ان سب کو بڑھاپے میں سزائے موت دینے کےلئے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اسکے خلاف دنیا بھر کے وکلاءنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے قانون اور عدالتی نظام کی توہین قرار دیا مگر حیران کن طور پر پاکستان کے وہ تمام طبقات جن میں دانشور‘ سیاستدان‘ ادیب اور مغربی سرمائے سے این جی اوز چلانے والے شامل ہیں جو پاکستان میں سزائے موت کے قانون کا خاتمہ چاہتے ہیں مگر یہ سب بنگلہ دیش میں 1971 ءمیں پاکستان سے محبت کے جرم میں دی جانیوالی پھانسیوں کی حمایت کرتے نظر آئے اور بعض تو قیام بنگلہ دیش کی حمایت پر اپنے بزرگوں کو دیئے جانیوالے ایوارڈ وصول کرنے کیلئے ڈھاکہ میں اس حوالے سے منعقد کی جانےوالی تقریب میں بھی جا پہنچے اور وہاں مہمان خصوصی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس تاریخی انکشاف پر تالیاں پیٹتے رہے جس میں قیام بنگلہ دیش میں بھارت کے سازشی کردار کا فخریہ انداز سے اقرار کیا گیا تھا۔ اسلام کو پاکستانیت قرار دے کر بنگلہ دیش سے نکالنے کے عمل کی مغربی ممالک نے بھی محض اسلام دشمنی کی بنا پر حمایت کی اور جنوری 2014 ءمیں انتخابات سے قبل مخالفین کی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ کے نتیجے یں تمام اپوزیشن جماعتوں کے اجتماعی بائیکاٹ کے بعد بے معنی رہ جانے والے انتخابی عمل کو تسلیم کرنے سے انکار کے باوجود بھارتی خواہش پر حسینہ واجد کے وزیراعظم منتخب ہونے پر خاموش رہے ہوں حسینہ واجد 2014 ءکے بعد ہر عالمی فورم پر پاکستان کےخلاف بھارت کے شانہ بشانہ کھڑی اور پاکستان مخالف بھارت کے ہر بیان کی بلاوجہ تائید کرتی نظر آئی جس میں اسکی طر ف سے لگایا جانیوالا سب سے بڑا الزام دہشت گردوں کی حمایت اور دہشت گردی کو ہمسایہ ملکوں کے خلاف بطور حکمت عملی استعمال کرنے کے حوالے سے تھا۔ نیو دہلی و ڈھاکہ کے باہمی طور پر شیر و شکر اور ایک ہی طرح کی خارجہ پالیسی رکھنے کی بنا پر دنیا بھر میں تاثر یہی تھا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے باہمی تعلقات دوہمسایہ ممالک کے نہیں بلکہ ”ایک جان دو قالب“ جیسے ہیں اور اس تاثر کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارتی صوبہ بنگال (مغربی) کے وزیر خوراک Jyotipriyo mallick نے بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مہمانوں اور مغربی بنگال کے اکابرین کی مشترکہ تقریب میں بنگالی زبان و تہذیب پر جذباتی تقریر میں یہ کہہ کر بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مہمانوں کو پریشان کر دیا کہ ”20 سال کے عرصہ میں دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش کے نام سے کوئی ریاست نہیں ہو گی“ مذکورہ تقریب بنگلہ دیش کی مادری زبان بنگالی کے حوالے سے 2002 ءمیں عالمی مادری زبان کے دن سے شروع کی گئی تحریک کی سالگرہ کے طور پر 21 فروری 2018 ءکو بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد پر قائم زیرو پوائنٹ کے مقام پر خصوصی طور پر منعقد کی گئی تھی جس کا اہتمامThe India bangladesh ganga padma language unity council نے کیا تھا اور بنگلہ دیش کیلئے مادری زبان کا دن منانے کی شروعات بھی اسی تنظیم نے کی تھی۔ اس اہم تقریب کے انعقاد کیلئے دونوں ملکوں کی 20 کے قریب دیگر تنظیموں نے خصوصی طور پر حصہ لیا۔ 200 گز بھارت کے اندر پتراپول نامی سرحدی گا¶ں کو زیرپوائنٹ میں شامل کیا گیا۔اسی طرح بنگلہ دیش کے علاقے بیناپول سے 200 گز لے کر زیروپوائنٹ میں اسے بنگلہ بندھو شیخ مجیب ایکوشے منچ کے نام سے پنڈال سجایا گیا۔ بنگلہ دیش سے عوامی لیگ کے صدر پجوش بھاٹا چاریہ‘ جیسور سے عوامی لیگ کے جنرل سیکرٹری شاہین چکادار‘ بنگلہ دیش بارڈر گارڈ کے چیف اور علاقے کے پولیس سربراہ ایک بڑے وفد کے ہمراہ تقریب میں شامل ہوئے جس میں قومی سطح کے گلوکار‘ ادیب و شاعر‘ صحافی اور معززین کی بڑی تعداد شامل تھی۔ بھارت سے لوک سبھا کی ممبر مناٹھاکر ‘ مغربی بنگال سے وزیر برائے خوراک واسو جبوتی پریا مالک‘ گلوکار انوپم راسے‘ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے سے منسلک صحافیوں اوردیگر بہت سے سرکاری وغیر سرکاری افراد نے شرکت کی ۔تقریب کی حفاظت کیلئے بھارت و بنگلہ دیش سے فوجیوں کی بڑی تعداد اپنی سرحدی حدود کے اندر موجود تھی۔ اخراجات تقریب کا اہتمام کرنے والی بھارتی تنظیم کی ذمہ داری تھی ۔جس میں 10ہزار افرا دکے کھانے پینے کا خرچہ بھی شامل تھا۔ مغربی بنگال کے وزیر برائے خوراک کے بنگلہ دیش سے متعلق کی جانے والی پیشن گوئی نے ڈھاکہ میں خطرے کا بگل بجا دیا۔بنگلہ دیشی عوام حسینہ واجد کی بھارت سے غلامی کی سطح تک پہنچی ہوئی دوستی سے تو بخوبی واقف تھے لیکن انہیں یہ اندازہ ہرگز نہیں تھا کہ پاکستان کو توڑنے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیلئے بھارت کے تعاون سے بنگالی زبان کی بنیاد پر شروع کی گئی تحریک کا مقصد بنگلہ دیش کا قیام صرف ڈھونگ تھا۔ جبکہ بھارت کا اصل مقصد آزاد ریاست سکم کی طرح بنگلہ دیش کو بھارت میں ضم کرنا ہے ۔بنگلہ دیشیوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو دیکھتے ہوئے بجائے بھارت سرکار اپنے وزیر کے بیان پر اپنا موقف دیتی بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے بنگلہ دیشی عوام کو پاکستان اور چین کا ایجنٹ قرار دے کر ان پر بھارت میں اسلام آباد بیجنگ کے کہنے پر افراتفری پھیلانے کا الزام لگا دیا۔ بھارتی آرمی چیف کو مذکورہ بیان بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد پر زیروپوائنٹ والے تقریب کیلئے مختص کی گئی جگہ کے علاوہ مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کی سرحد کے مختلف مقامات پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے بنگلہ دیشیوں پر کئے جانےوالے بدترین تشدد سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں دینا پڑا۔بھارت وبنگلہ دیش کی سرحد پر بھارت کی طرف سے نصب کی گئی دوہری خاردار باڑ کے باوجود بنگالی زبان کے دن کے حوالے سے مختلف مقامات پر ہزاروں بنگلہ دیشی وبھارتی بنگالیوں کی باہمی ملاقات کیلئے خاردارباڑ کی دیواروں میں بنائے گئے دروازے کھول دیئے گئے تھے جہاں سے وہیں کھڑے ہوکر میل ملاقات کرنے کی بجائے بے شمار بنگلہ دیشی بھارت میں داخل ہوگئے تو ان پر بھارتی سکیورٹی والوں نے ہلہ بول دیا لاٹھیوں سے جانوروں کی طرح ان کی پٹائی کی گئی رائفل کے بٹ مارے گئے ۔کسی کی پسلیاں ٹوٹیں توکسی کے بازو،ایک ہی روز بنگالی مادری زبان کے حوالے سے بھارت کے دوہرے معیار پر جب بھارتی آرمی چیف سے سوال کیا گیا تو اس نے سارے بنگلہ دیش کو پاکستان وچین کا ایجنٹ اور بھارت کا دشمن قرار دے دیا۔ جس پر بنگلہ دیشی حکومت تا حال خاموش ہے۔