حکومت پاکستان کی طرف اس ماہ رمضان میں بھی ایک سو اشیا پر سبسڈی دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے اس سے غریب غربا کو چاول ، آٹا ، چینی ، سوجی ، گھی سمیت رمضان میں زیادہ استعمال ہونے والی اشیاءکی قیمتوں میں کچھ ریلیف ملے گا۔ مگر کیا اس سے عام مارکیٹ میں دستیاب اشیا کی قیمتوں پر فرق پڑے گا تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ اگر حکومت عام بازاروں اور دکاندارں کو بھی سرکاری نرخ نامہ پر عمل کا پابند بنائے تو عام آدمی اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے ایک اسلامی ملک کہلانے اور خود کو مسلمان کہلوانے والے ہم لوگ خود اس ماہ مبارک کو بھی عرصہ محشر بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں چھوڑتے ۔ حکومت لاکھ رعایتی پیکج کا اعلان کرے ،سبسڈی دے ، سستے اور رمضان بازار لگائے ، مگر ہم پاکستانی جو خود بڑے فخر سے مسلمان کہتے ہیں۔ حکومت کی ہر ترکیب کو جو عوام کے فائدہ کے لئے ہو ناکام بنا دیتے ہیں۔ رمضان ایثار کا مہینہ ہے۔ بخشش کا مہینہ ہے پوری دنیا میں اس ماہ کو مسلمانوں کے اہم اور خاص مہینے کے طور پر لیا جاتا ہے ۔ غیر مسلم ممالک میں بھی اس کا خاص احترام کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں آباد مسلمانوں کو خاص طور پر اشیا کی خرید و فروخت میں خاص طور پر رعایت دی جاتی ہے۔ یہ کام سرکاری سطح پر ہی نہیں ہوتا۔ عام دکاندار تک” رمضان مبارک “ کے نام سے ہر قسم کی اشیا پر آدھی سے زیادہ رعایت دیتے ہیںتاکہ مسلمان آسانی سے اپنا یہ مقدس مہینہ بسر کر سکیں۔ وہی کیفیت ہوتی ہے جو کرسمس یا ایسٹر کے موقع پر مسیحی ممالک میں وہاں کے عوام رعایتوں کی صورت میں بھرپور رعایت کی شکل میں ملتی ہے۔اس کے برعکس جب ہم اپنے ملک عزیز میں دیکھتے ہیںتو نہایت شرمناک صورتحال ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس ماہ مقدس کو ہمارے مسلمان ناجائز منافع خور دکاندار اور تاجر سے لے کر ریڑھی والے تک دونوں ہاتھوں سے روزدار مسلمانوں کے بال کی کھال اتارنے کا مہینہ قرار دے کر خوب لوٹتے ہیں۔ ہر قسم کا ناقص گٹھیا مال تک گوداموں سے نکال کر مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ عام اشیاءکی قیمتیں راتوں رات ہزار گنا بڑھ جاتی ہیں ۔ ایک لطیفہ ہے کہ ایک بچے نے اپنی ماں سے پوچھا کہ امی رمضان کب شروع ہوگا تو اس سادہ دل خاتون نے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ جس دن صبح ہوتے ہی تمام چیزوں کے نرخ کئی گنا سے زیادہ ہو جائیں ۔ اس دن سمجھ لینا رمضان شروع ہوگیا ہے۔
کیا یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام نہیں۔ اب تو غیر مسلم بھی ہمارے اس عمل پر بھی طنز کرنے سے نہیں چوکتے ۔ اس حوالے سے ایک تحریر کافی مقبول ہے کہ ایک غریب مسیحی جوڑا رمضان میں پریشان حال بیٹھا تھا۔ غریب عورت ایک دم چیزوں کے دام چڑھنے سے کچھ زیادہ ہی پریشان تھی تو اس کے شوہر نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ارے پگلی زیادہ پریشان نہ ہو یہ عارضی مہنگائی ہے جیسے ہی مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان ختم ہو جائے گا چیزوں کے نرخ واپس اپنی پرانی سطح پر آجائیں گے ۔ اس سے زیادہ شرم کی بات ہمارے حاجی،نمازی قسم کے ان تاجروں اور دکانداروں کے لئے کیا ہوگی جو اس مقدس مہینے میں بھی مسلمانوں کو لوٹنے سے باز نہیں آتے۔
کفار تو ہمارے لئے رعایت پیدا کرتے ہیں ہم مسلمان ہو کرمسلمانوں کے لئے عذاب بن جاتے ہیں۔ کیا پانچ وقت کی نماز ہر سال عمرہ و حج کا ان پر اتنا بھی اثر نہیں ہوتا کہ جو خود کو نبی رحمت کی امت کہلانے میں فخرمحسوس کرتے ہیں اس ایک ماہ میں روزہ دار غریبوں کے لئے ہی رحمت بن جائیں ، زحمت نہ بنیں۔ یہ تو چلیں کاروباری لوگ ہیں یہ اپنی حرص سے مجبورہیں۔ ان کا پیٹ سوائے قبر کی مٹی کے اور کوئی نہیں بھر سکتا۔ مگر ہمارے متمول طبقے کو خوشحال گھرانوں کو کون سی مار پڑی ہے کہ وہ بھی اس سخاوت کے مہینے میں سخاوت نہیں کرتے اپنا ہاتھ نہیں کھولتے جیب ڈھیلی نہیں کرتے ۔ دستر خوان وسیع نہیں کرتے۔ یہ خوشحال گھرانے اگر اپنے جیسے مالدار اور لوگوں کو دعوت افطار دے کریا بڑے ہوٹلوں میں افطار پارٹی دے کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بڑا تیر چلا لیا یا ثواب کما لیا تو یہ سراسر غلط سوچ ہے۔ یہ جو بڑے بڑے لوگ بڑے بڑے ہوٹلوں میں افطار پارٹیاں کرتے اور کھاتے ہیں انہیںتو خود یہ تمام لوازمات گھروں میں دستیاب ہیں۔ بھرے پیٹ کو کھلانا کونسا ثواب ہے۔ ثواب تو تب ہے کہ یہ صاحب ثروت لوگ اپنا دستر خوان غریبوں کے لئے وسیع کریں۔غریبوں کو افطار پارٹی دیں۔ شہروں میں بڑی سطح پر ایسے اجتماعات منعقد کریں جہاں غریبوں کو افطار کے ساتھ اچھا کھانا کھلایا جائے ۔ سحری کرائی جائے تو تب کہا جا سکتا ہے۔ کہ ثواب کمانے کے مہینے میں ثواب وہ بھی ہزاروں گنا زیادہ ثواب کمایا گیا۔
اس طرح اگر عام کھاتے پیتے گھرانے بھی اپنے افطار کے سامان سے تھوڑا بہت سامان اپنے اردگرد بسنے والے غریب گھروں میں بھی بھجوا دیں تو لاکھوں گھروں میں اس رحمت کے مہینے کے حقیقی ثمرات دکھائی دیںگے۔ لاکھوں گھروں میں باعزت طریقے پیٹ بھر کرافطار ہو سکے گا۔ ورنہ آج بھی ملک عزیز کے لاکھوں گھرانے صرف سادہ روٹی اور پانی کے ساتھ سحر و افطار کا بندوبست کرتے ہیں۔ خداوند عالم کے یہ بندے اپنے رب کے بہت قریب ہوتے ہیں اگر ہم سب مل کر ان بندوں کو بھی اپنے سحر و افطار میں شامل کرلیں تو یقین جانیں ہمارا رب جن کے بہت قریب ہوتے ہیں ہم سے بہت خوش ہوگا۔ فیصلہ کرنا اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم نے اپنے قریب کے لوگوں کو جو کھاتے پیتے ہیں خوش کرنا ہے یا ان غریب بندوں کو خوش کرنا ہے جو ہمارے رب کے زیادہ قریب ہیں ۔ یاد صرف یہ رکھنا ہے کہ جس سے اسکا رب خوش ہوگیا وہ اس ماہ مبارک کی تمام سعادتیں اور ثمرات سمیٹنے میں کامیاب ہوگیا ۔ جس نے اپنے رب کے قریب بندوں کو اذیت پریشانی اور مشکلات میں مبتلا کیا وہ رمضان میںبھی اپنے رب کی بخش اور رحمت سے دور رہے گا ۔ اب یہ فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے کہ ہم صرف نام کے مسلمان بن کر مال سمیٹتے ہیں یا حقیقت میں مسلمان بن کر اس رحمت کے مہینے میں رحمت بن کر اپنے رب کی رحمتوں کو عام کرتے ہیں۔