فیصل آباد ۔۔ احمد کمال نظامی
فیصل آباد میں الیکشن 2018ء کے حوالے سے انتخابی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ الیکشن کمشن نے اس ہفتے نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے اپنی حتمی رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں فیصل آباد شہر سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نمبر تبدیل کر دیئے گئے۔ الیکشن 2013ء اور اس سے پہلے انتخابات میں وزیرمملکت حاجی محمد اکرم انصاری کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 85 ضلع فیصل آباد کا آخری حلقہ تھا اور شہر سے قومی اسمبلی کی چار نشستوں میں بھی اس حلقہ کا نمبر آخری تھا۔ حتمی حلقہ بندی سے پہلے بھی اسے شہر سے قومی اسمبلی کا آخری حلقہ این اے 110 رکھا گیا تھا جبکہ اس ہفتے جاری ہونے والی حتمی رپورٹ میں اس حلقہ کا نمبر این اے 107 ظاہر کیا گیا ہے اور یہ فیصل آباد شہر کا قومی اسمبلی کا پہلا حلقہ ہے۔ وزیرمملکت عابد شیرعلی کے انتخابی حلقہ کا پہلا نام این اے 84 تھا، نیا نام این اے 108 ہے۔ الیکشن 2013ء میں ایک نوجوان میاں فرخ حبیب کو چوہدری عابد شیرعلی کے مقابلے میں اتارا گیا تھا۔ وزیرمملکت رانا محمد افضل کے حلقہ این اے 82 کو این اے 110 کا نیا نام دیاگیا ہے اور یہ فیصل آباد ضلع اور شہر کا آخری حلقہ ہے اور اس حلقہ میں تحریک انصاف سابق سینئر صوبائی وزیر راجہ ریاض احمد کو رانا محمد افضل کے مقابلے میں اتارنے کا پروگرام رکھتی ہے جبکہ اس حلقہ میں سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا بھی انتخابی دنگل کا حصہ ہوں گے ۔ تحریک انصاف حامد رضا اور راجہ ریاض احمد خاں دونوں میں سے کسی ایک کو پارٹی ٹکٹ دینے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہے البتہ پیپلزپارٹی کی طرف سے فیصل آباد کے شہری حلقوں میں ابھی تک کوئی نام سامنے نہیں آیا۔
جس طرح شہری حلقوں میں نشستوں کی ترتیب تبدیل کی گئی ہے۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے سے شہری حلقوں کو الاٹ کئے گئے ناموں کے حوالے سے مختلف جماعتوں کی فلیکس اور ہورڈنگز پر امیدواروں کے کروڑوں روپے حتمی فہرست کے جاری ہونے کے ساتھ ہی ڈوب گئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے حلقوں میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے اس بیان کو نہایت سنجیدہ لیا گیا ہے جس بیان میں انہوں نے امکان ظاہر کیا ہے کہ انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے خدشات بے وجہ نہیں ہیں۔ الیکشن 2018ء کا کوئی ایمپائر ایسا ضرور موجود ہے جو تحریک انصاف کے چیئرمین کو اندر کی خبریں دیتا رہتا ہے اور پوری قوم یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ جیسے جیسے انتخابات قریب آ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کو مختلف طریقوں سے ’’ریلیف‘‘ پہنچایا جا رہا ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کو الیکشن کے کھیل میں ’’فاؤل پلے‘‘ سے اقتدار سے باہر رکھنے کا منصوبہ بن چکا ہے۔ ایجنسیوں کے کارندے پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کی کامیابیوں کی رپورٹس دے رہے ہیں اور انتخابات پر اثرانداز ہونے والے خفیہ ہاتھ ایجنسیوں کے نمائندوں سے ملنے والے اشاروں کی روشنی میں کھیل کے میدان کیلئے حکمت عملی بنانے اور متعلقہ افراد کو ’’بریف‘‘ کرنے میں مصروف ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک طرف سیاسی وفاداریوں کی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ میاں محمد نوازشریف ایک طرف احتساب عدالت میں اپنے اور اپنی بیٹی، بیٹوں اور داماد کے خلاف ریفرنسز اور اس کیس کے متوقع نتائج کی طرف دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف نہایت تیزی کے ساتھ مسلم لیگ(ن) کے انتخابی مہم کو چلانے میں مصروف ہیں۔ وہ گزشتہ کئی دنوں سے صوبے کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں عوامی رابطہ مہم میں مصروف ہیں۔ وہ لوگوں کوپانچ برسوں کے دوران دوسرے صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں ہونے والے ترقیاتی کام دیکھنے کی دعوت دے رہے ہیں ، ان کا مانسہرا ،صادق آباد کا انتخابی جلسہ اور ایک روز پہلے جہلم کا انتخابی جلسہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ عوام نے حکمران پارٹی کے ذریعے پنجاب کے شہروں میں ہونے والے ترقیاتی کامو ںکو پسند کیا ہے اور وہ ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن کیا سابق وزیراعظم کو قوم دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں دیکھ سکے گی۔ الیکشن 2018ء کے نتیجے میں کس کو اقتدار میں آنا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان کہتے ہیں کسی سے اتحاد نہیں ہو گا۔ نہ الیکشن سے پہلے اور نہ الیکشن کے بعد بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف مل کر حکومت بنائیں گی۔ مخلوط حکومت کا بننا اچھنبے کی بات نہیں ہوتی۔ 1993ء کے انتخابات کے بعد پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعداد کم و بیش برابر تھی۔ جونیجو لیگ کے پاس پنجاب اسمبلی میں صرف پندرہ ارکان تھے لیکن مسلم لیگ(ن) کو صوبے کے اقتدار سے باہر رکھنے کے لئے پیپلزپارٹی نے میاں منظور احمد وٹو کو وزیراعلیٰ بنا لیا تھا۔ سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن میں پوری قوم نے تحریک انصاف کو مسلم لیگ(ن) کے نامزد امیدواروں کے خلاف آصف علی زرداری کے نامزد امیدواروں کو ووٹ ڈالتے دیکھا ہے۔ اگر اقتدار کی بساط بچھانے اور بگاڑنے والے خفیہ ہاتھ عمران خان کو سینٹ الیکشن میںآصف علی زرداری کے امیدواروں کے پیچھے کھڑا کر سکتی ہے تو پھر پیپلزپارٹی آئندہ وفاق میں تحریک انصاف کے ساتھ مل کر حکومت بھی بناسکتی ہے۔
نوازشریف کو ان کے مخالفین نے جس طرح چور دروازے سے اقتدار سے نکالا ہے، اس کا وضح مطلب ان کے ووٹ کی طاقت سے شکست اور ’’نااہلی‘‘ کا ڈھونگ رچانا ہے۔ وہ لاکھ کہیں ’’زرداری سب سے بڑی بیماری‘‘ لیکن پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ ان دونوں کی سیاست کی ڈور کہیں اور سے ہل رہی ہے ۔